ہر ایک حرفِ آرزو کو داستاں کیے ہوئے |
زمانہ ہوگیا ہے ان کو میہماں کیے ہوئے |
سرودِ عیش تلخیِ حیات نے بھلا دیا |
دل حزیں ہے بے کسی کو حرزِ جاں کیے ہوئے |
بہار حسن و دلبری کا خواب پھر سے دیکھ لوں |
خیالِ حسن و دلبری کو جاوداں کیے ہوئے |
کلی کلی کو گلستاں کیے ہوئے وہ آئیں گے |
وہ آئیں گے کلی کلی کو گلستاں کیے ہوئے |
سکون دل کی راحتوں کو آج ان سے مانگ لوں |
سکون دل کی راحتوں کو بے کراں کیے ہوئے |
حدیثِ آہ نیم شب سناؤں گی، سناؤں گی |
زبانِ شبنم و گہر کو ترجماں کیے ہوئے |
وہ آرزوئے دل کی ہمتیں بڑھا ئیں شوق سے |
غرورِ عشقِ بے نوا کو کامراں کیے ہوئے |
وفور شوق و بے خودی، ٹھہر ٹھہر دل حزیں |
نگاہ شوق و بے خودی کا امتحاں کیے ہوئے |
تجلیاں لیے ہوئے وہ آرہے ہیں سوئے دل |
نگاہ و دل کی وسعتوں کو لامکاں کیے ہوئے |
وہ آئیں گے تو آئیں گے جنونِ شوق اُبھارنے |
وہ جائیں گے تو جائیں گے خرابیاں کیے ہوئے |
متاعِ صبر و ہوش کو لٹاؤں اُن کی راہ میں |
وداعِ صبر و ہوش کو متاعِ جاں کیے ہوئے |
میں اُن کی بھی نگاہ سے چھپا کے اُ ن کو دیکھ لوں |
کہاُن سے بھی ہے آج رشک بدگماں کیے ہوئے |
وقار عشق تو سہی، کریں وہ اعترافِ غم |
نظر کو دل کی دھڑکنوں کا رازداں کیے ہوئے |
سرِ نیاز وپائے ناز ابتدا تھی عشق کی |
اب انتہائے بے خودی ہے سرگراں کیے ہوئے |
یہ کیفِ انتظار ہے کہ ساری عمر کاٹ دوں |
نظر کو وقفِ انتظارِ دل ستاں کیے ہوئے |
ہر ایک حرفِ آرزو کو داستاں کیے ہوئے |
زمانہ ہوگیا ہے ان کو میہماں کیے ہوئے |
سرودِ عیش تلخیِ حیات نے بھلا دیا |
دل حزیں ہے بے کسی کو حرزِ جاں کیے ہوئے |
بہار حسن و دلبری کا خواب پھر سے دیکھ لوں |
خیالِ حسن و دلبری کو جاوداں کیے ہوئے |
کلی کلی کو گلستاں کیے ہوئے وہ آئیں گے |
وہ آئیں گے کلی کلی کو گلستاں کیے ہوئے |
سکون دل کی راحتوں کو آج ان سے مانگ لوں |
سکون دل کی راحتوں کو بے کراں کیے ہوئے |
حدیثِ آہ نیم شب سناؤں گی، سناؤں گی |
زبانِ شبنم و گہر کو ترجماں کیے ہوئے |
وہ آرزوئے دل کی ہمتیں بڑھا ئیں شوق سے |
غرورِ عشقِ بے نوا کو کامراں کیے ہوئے |
وفور شوق و بے خودی، ٹھہر ٹھہر دل حزیں |
نگاہ شوق و بے خودی کا امتحاں کیے ہوئے |
تجلیاں لیے ہوئے وہ آرہے ہیں سوئے دل |
نگاہ و دل کی وسعتوں کو لامکاں کیے ہوئے |
وہ آئیں گے تو آئیں گے جنونِ شوق اُبھارنے |
وہ جائیں گے تو جائیں گے خرابیاں کیے ہوئے |
متاعِ صبر و ہوش کو لٹاؤں اُن کی راہ میں |
وداعِ صبر و ہوش کو متاعِ جاں کیے ہوئے |
میں اُن کی بھی نگاہ سے چھپا کے اُ ن کو دیکھ لوں |
کہاُن سے بھی ہے آج رشک بدگماں کیے ہوئے |
وقار عشق تو سہی، کریں وہ اعترافِ غم |
نظر کو دل کی دھڑکنوں کا رازداں کیے ہوئے |
سرِ نیاز وپائے ناز ابتدا تھی عشق کی |
اب انتہائے بے خودی ہے سرگراں کیے ہوئے |
یہ کیفِ انتظار ہے کہ ساری عمر کاٹ دوں |
نظر کو وقفِ انتظارِ دل ستاں کیے ہوئے |