قافلے آئے گئے |
قافلے آئے نگاہوں نے بچھایا دامن |
تیرہ و تار فضاؤں نے جلالیں شمعیں |
آئنہ گردشِ ایام کو دکھلانے لگے |
وقت کے لب پہ نئے زمزمے اِترانے لگے |
رات کے اشک ِ سیہ تاب کے ساغر ڈھلکے |
اَن کہے راز ستاروں کی نگہ سے چھلکے |
ناز کرتا ہوا زرکار سجیلا آنچل |
مسکراتا ہوا مدہوش رسیلا کاجل |
داستانیں ہوئیں تصنیف بہ عنوانِ وفا |
لیلیِ شوق سے باندھے گئے پیمانِ وفا |
زندگی مچلی اُمنگوں کا اشارہ پا کر |
جاگ اُٹھی پھوٹتی کرنوں کا سہارا پا کر |
آگ سی لگ گئی سینے میں کہستانوں کے |
زمزمے گونج اُٹھے مست حدی خوانوں کے |
قافلے آئے گئے |
قافلے گزرے، نگاہوں نے سمیٹا دامن |
تھر تھرائے ہوئے لمحوں نے بجھا دیں شمعیں |
کیف بردوش فضاؤں پہ اندھیرے لپکے |
بھوت بن بن کے خلاؤں میں بگولے لپکے |
رازداں تاروں کی معصوم نگاہی بھی نہیں |
ظلمتِ دشت میں بھٹکا ہوا راہی بھی نہیں |
بے وفا راہوں میں پیمانِ سفرکھو بھی چکا |
وقت کے ہاتھ میں یادوں کا دیا بھی نہ رہا |
ریت کے ماتھے پہ نقشِ کفِ پا بھی نہ رہا |
ریت کے ماتھے پہ نقشِ کفِ پا بھی نہ سہی |
وقت کے ہاتھ میں یادوں کا دیا بھی نہ سہی |
حوصلے اور نئی شمعیں جلائیں گے ابھی |
نئے راہی، نئے منزل، نیا سامان سفر |
نئے پیمان، نئے عزم، نئی شانِ سفر |
ظلم پروردہ تمناؤں کی شہ پائے ہوئے |
سر اُٹھائے ہوئے، بپھرے ہوئے، تھرائے ہوئے |
زخم کھائے ہوئے، کچلے ہوئے، ٹھکرائے ہوئے |
یعنی ہر گام پہ منزل کی قسم کھائے ہوئے |
قافلے اور اسی راہ سے آئیں گے ابھی |
قافلے آئے گئے |
قافلے آئے نگاہوں نے بچھایا دامن |
تیرہ و تار فضاؤں نے جلالیں شمعیں |
آئنہ گردشِ ایام کو دکھلانے لگے |
وقت کے لب پہ نئے زمزمے اِترانے لگے |
رات کے اشک ِ سیہ تاب کے ساغر ڈھلکے |
اَن کہے راز ستاروں کی نگہ سے چھلکے |
ناز کرتا ہوا زرکار سجیلا آنچل |
مسکراتا ہوا مدہوش رسیلا کاجل |
داستانیں ہوئیں تصنیف بہ عنوانِ وفا |
لیلیِ شوق سے باندھے گئے پیمانِ وفا |
زندگی مچلی اُمنگوں کا اشارہ پا کر |
جاگ اُٹھی پھوٹتی کرنوں کا سہارا پا کر |
آگ سی لگ گئی سینے میں کہستانوں کے |
زمزمے گونج اُٹھے مست حدی خوانوں کے |
قافلے آئے گئے |
قافلے گزرے، نگاہوں نے سمیٹا دامن |
تھر تھرائے ہوئے لمحوں نے بجھا دیں شمعیں |
کیف بردوش فضاؤں پہ اندھیرے لپکے |
بھوت بن بن کے خلاؤں میں بگولے لپکے |
رازداں تاروں کی معصوم نگاہی بھی نہیں |
ظلمتِ دشت میں بھٹکا ہوا راہی بھی نہیں |
بے وفا راہوں میں پیمانِ سفرکھو بھی چکا |
وقت کے ہاتھ میں یادوں کا دیا بھی نہ رہا |
ریت کے ماتھے پہ نقشِ کفِ پا بھی نہ رہا |
ریت کے ماتھے پہ نقشِ کفِ پا بھی نہ سہی |
وقت کے ہاتھ میں یادوں کا دیا بھی نہ سہی |
حوصلے اور نئی شمعیں جلائیں گے ابھی |
نئے راہی، نئے منزل، نیا سامان سفر |
نئے پیمان، نئے عزم، نئی شانِ سفر |
ظلم پروردہ تمناؤں کی شہ پائے ہوئے |
سر اُٹھائے ہوئے، بپھرے ہوئے، تھرائے ہوئے |
زخم کھائے ہوئے، کچلے ہوئے، ٹھکرائے ہوئے |
یعنی ہر گام پہ منزل کی قسم کھائے ہوئے |
قافلے اور اسی راہ سے آئیں گے ابھی |