(واشنگٹن)

نارسا دستِ تمنا کی طرح
آشنا زخمِ تماشا کی طرح
سرخ ہوتا ہے سحر کا آنچل
اجنبی منبر و محراب و دریچہ تاباں
ساعتِ طالع بیدار پہ نازاں نازاں
اپنے قد سے بھی ذرا اور بلند و بالا
سورج اُبھرا تو جبینوں سے کرن بھی پھوٹی
دُھوپ چمکی ہے تو آنگن میں اُجالا اُمڈا
اور کچھ دُور— بہت دُور نہیں
شوخ رنگین اُجالوں کے قریں
کتنے گہرے ہیں دُھویں کے بادل
ہم نے تو پھر بھی کھلونوں سے بہلنا چاہا
شہر گل میں ہمیں خوشبوئے وفا یاد آئی
ارضِ کشمیر سے وتنام تلک
امن کے خواب سے نیپام تلک
ماند پڑتی ہوئی چہرو ں کی جلا یاد آئی
دیس پردیس کے زخموں کی حنا یاد آئی
دل کی کیا بات، سدا سے پاگل
سرخ ہوتا ہے سحر کا آنچل!
(۱۹۶۹ء)

(واشنگٹن)

نارسا دستِ تمنا کی طرح
آشنا زخمِ تماشا کی طرح
سرخ ہوتا ہے سحر کا آنچل
اجنبی منبر و محراب و دریچہ تاباں
ساعتِ طالع بیدار پہ نازاں نازاں
اپنے قد سے بھی ذرا اور بلند و بالا
سورج اُبھرا تو جبینوں سے کرن بھی پھوٹی
دُھوپ چمکی ہے تو آنگن میں اُجالا اُمڈا
اور کچھ دُور— بہت دُور نہیں
شوخ رنگین اُجالوں کے قریں
کتنے گہرے ہیں دُھویں کے بادل
ہم نے تو پھر بھی کھلونوں سے بہلنا چاہا
شہر گل میں ہمیں خوشبوئے وفا یاد آئی
ارضِ کشمیر سے وتنام تلک
امن کے خواب سے نیپام تلک
ماند پڑتی ہوئی چہرو ں کی جلا یاد آئی
دیس پردیس کے زخموں کی حنا یاد آئی
دل کی کیا بات، سدا سے پاگل
سرخ ہوتا ہے سحر کا آنچل!
(۱۹۶۹ء)
زخمِ تماشا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more