آگے حریمِ غم سے کوئی راستہ نہ تھا |
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا |
دامانِ چاک چاک گلوں کو بہا نہ تھا |
دل کا جو رنگ تھا وہ نظر سے چھپا نہ تھا |
رنگ ِ شفق کی دھوپ کھلی تھی قدم قدم |
مقتل میں صبح و شام کا منظر جدا نہ تھا |
کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ |
مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا نہ تھا |
کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنے |
دل اُس کو ڈھونڈتا تھا جسے جانتا نہ تھا |
کچھ لوگ شرمسار، خدا جانے ، کیوں ہوئے |
اپنے سوا ہمیں تو کسی سے گلہ نہ تھا |
ہر اک قدم اٹھا تھا نئے موسموں کے ساتھ |
وہ جوصنم تراش تھا ، بت پوجتا نہ تھا |
جس در سے دل کو ذوقِ عبادت عطا ہوا |
اس آستانِ شوق پہ سجدہ روا نہ تھا |
آندھی میں برگِ گُل کی زباں سے ادا ہوا |
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا |
(۱۹۶۸ء) |
آگے حریمِ غم سے کوئی راستہ نہ تھا |
اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا |
دامانِ چاک چاک گلوں کو بہا نہ تھا |
دل کا جو رنگ تھا وہ نظر سے چھپا نہ تھا |
رنگ ِ شفق کی دھوپ کھلی تھی قدم قدم |
مقتل میں صبح و شام کا منظر جدا نہ تھا |
کیا بوجھ تھا کہ جس کو اٹھائے ہوئے تھے لوگ |
مڑ کر کسی کی سمت کوئی دیکھتا نہ تھا |
کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنے |
دل اُس کو ڈھونڈتا تھا جسے جانتا نہ تھا |
کچھ لوگ شرمسار، خدا جانے ، کیوں ہوئے |
اپنے سوا ہمیں تو کسی سے گلہ نہ تھا |
ہر اک قدم اٹھا تھا نئے موسموں کے ساتھ |
وہ جوصنم تراش تھا ، بت پوجتا نہ تھا |
جس در سے دل کو ذوقِ عبادت عطا ہوا |
اس آستانِ شوق پہ سجدہ روا نہ تھا |
آندھی میں برگِ گُل کی زباں سے ادا ہوا |
وہ راز جو کسی سے ابھی تک کہا نہ تھا |
(۱۹۶۸ء) |