اے مصحفِ سادہ کوئی فرمانِ تمناّ! | ||
اب رسمِ مدارات ، دعائیں نہ سبیلیں | ||
کافی ہیں نگاہوں کو نگاہوں کی فصیلیں | ||
اب فاصلۂ حدِ ادب راز نہیں ہے | ||
اب عرضِ سخن ، تابِ نظر کچھ بھی نہیں ہے | ||
وہ یا س کا عالم ہے ، خبر کچھ بھی نہیں ہے | ||
شہپر کو ابھی حسرتِ پرواز نہیں ہے | ||
کچھ رنج نہ شکوہ ہے کوئی داد نہ فریاد | ||
وہ شور کہ اب کوئی بھی آواز نہیں ہے | ||
بے ساختہ انکار کی جرأت بھی نہیں ہے | ||
وہ منزلِ عرفاں ہے کہ حیرت بھی نہیں ہے | ||
اب مرحلۂ نکہتِ گُل آئے نہ آئے | ||
اب نکہتِ گُل نامۂ محبوب نہیں ہے | ||
بے چین کرن کلبۂ احزاں سے نہ جھجکے | ||
یادوں کے لیے اب کوئی مہمیز نہ ہوگی | ||
اب درد کی سوغات سنبھالی نہیں جاتی | ||
آجائے ہوا کا جوکوئی شوخ سا جھونکا | ||
دستک میں کسی ناز کا انداز نہ ہوگا | ||
اب دل کے دھڑکنے کی صداتیز نہ ہوگی | ||
فرقت میں ابھی رنگِ حنا تک نہیں جلتا | ||
مژگاں پہ سرِ شام دیا تک نہیں جلتا | ||
اب وحشتِ دل ، شورشِ غم کچھ بھی نہیں ہے | ||
اب حرمتِ جاں ، دیدۂ نم کچھ بھی نہیں ہے | ||
اب آئے تو آئے مرے خوابوں کا مسیحا! | ||
(۱۹۶۸ء) |
اے مصحفِ سادہ کوئی فرمانِ تمناّ! | ||
اب رسمِ مدارات ، دعائیں نہ سبیلیں | ||
کافی ہیں نگاہوں کو نگاہوں کی فصیلیں | ||
اب فاصلۂ حدِ ادب راز نہیں ہے | ||
اب عرضِ سخن ، تابِ نظر کچھ بھی نہیں ہے | ||
وہ یا س کا عالم ہے ، خبر کچھ بھی نہیں ہے | ||
شہپر کو ابھی حسرتِ پرواز نہیں ہے | ||
کچھ رنج نہ شکوہ ہے کوئی داد نہ فریاد | ||
وہ شور کہ اب کوئی بھی آواز نہیں ہے | ||
بے ساختہ انکار کی جرأت بھی نہیں ہے | ||
وہ منزلِ عرفاں ہے کہ حیرت بھی نہیں ہے | ||
اب مرحلۂ نکہتِ گُل آئے نہ آئے | ||
اب نکہتِ گُل نامۂ محبوب نہیں ہے | ||
بے چین کرن کلبۂ احزاں سے نہ جھجکے | ||
یادوں کے لیے اب کوئی مہمیز نہ ہوگی | ||
اب درد کی سوغات سنبھالی نہیں جاتی | ||
آجائے ہوا کا جوکوئی شوخ سا جھونکا | ||
دستک میں کسی ناز کا انداز نہ ہوگا | ||
اب دل کے دھڑکنے کی صداتیز نہ ہوگی | ||
فرقت میں ابھی رنگِ حنا تک نہیں جلتا | ||
مژگاں پہ سرِ شام دیا تک نہیں جلتا | ||
اب وحشتِ دل ، شورشِ غم کچھ بھی نہیں ہے | ||
اب حرمتِ جاں ، دیدۂ نم کچھ بھی نہیں ہے | ||
اب آئے تو آئے مرے خوابوں کا مسیحا! | ||
(۱۹۶۸ء) |