دل ضدی ہے
اس کو کچھ نہ کہو
آئینوں سے چہرے مانگے
اور ناکام پھرے
چہروں میں آئینے ڈھونڈے
اور بد نام رہے
زخموں کی ٹیسیں سہتا ہے
کرچیں، کنکر، کانٹے چن کر
خوش رہتا ہے
رہ لینے دو
جانے کس لہروں بہتا ہے
جو کہتا ہے کہہ لینے دو!
اس کو کچھ نہ کہو!
(۱۹۶۸ء)
دل ضدی ہے
اس کو کچھ نہ کہو
آئینوں سے چہرے مانگے
اور ناکام پھرے
چہروں میں آئینے ڈھونڈے
اور بد نام رہے
زخموں کی ٹیسیں سہتا ہے
کرچیں، کنکر، کانٹے چن کر
خوش رہتا ہے
رہ لینے دو
جانے کس لہروں بہتا ہے
جو کہتا ہے کہہ لینے دو!
اس کو کچھ نہ کہو!
(۱۹۶۸ء)
دل ضدی ہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more