کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطا کار بہت ہیں |
اک رسمِ و فا تھی سو وفادار بہت ہیں |
راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا |
رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں |
دیوار سے ڈھائے نہ گئے درد کے رشتے |
اب بھی غمِ ہجراں کے طلب گار بہت ہیں |
کیوں اہلِ وفا! زحمتِ بیداد نگاہی |
جینے کے لیے اور بھی آزار بہت ہیں |
ہوتا ہے اداؔ آج بھی زخموں سے چراغاں |
ارزاں ہے جوشے، اس کے خریدار بہت ہیں |
(۱۹۶۸ء) |
کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطا کار بہت ہیں |
اک رسمِ و فا تھی سو وفادار بہت ہیں |
راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا |
رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں |
دیوار سے ڈھائے نہ گئے درد کے رشتے |
اب بھی غمِ ہجراں کے طلب گار بہت ہیں |
کیوں اہلِ وفا! زحمتِ بیداد نگاہی |
جینے کے لیے اور بھی آزار بہت ہیں |
ہوتا ہے اداؔ آج بھی زخموں سے چراغاں |
ارزاں ہے جوشے، اس کے خریدار بہت ہیں |
(۱۹۶۸ء) |