ہم نے جانا کہ ہم
اپنے ہر قرض سے اب سبک بار ہیں
ہر تبسم کی قیمت ادا کر چکے
دل سے عذرِ وفا کر چکے
عزم ترک خطا کر چکے
اب تو جینے کے ہم بھی سزاوار ہیں
اور یہ دل کہ ضدی ہے، نادان ہے
آج کے دور میں
جب خلوص و وفا و محبت بھی فرمان ہے
آنسوؤں تک کی قیمت ہے، میزان ہے
اور یہ دل... اسے آج بھی
ایک بے ساختہ، بے محابا تبسم کا ارمان ہے
(۱۹۶۸ء)
ہم نے جانا کہ ہم
اپنے ہر قرض سے اب سبک بار ہیں
ہر تبسم کی قیمت ادا کر چکے
دل سے عذرِ وفا کر چکے
عزم ترک خطا کر چکے
اب تو جینے کے ہم بھی سزاوار ہیں
اور یہ دل کہ ضدی ہے، نادان ہے
آج کے دور میں
جب خلوص و وفا و محبت بھی فرمان ہے
آنسوؤں تک کی قیمت ہے، میزان ہے
اور یہ دل... اسے آج بھی
ایک بے ساختہ، بے محابا تبسم کا ارمان ہے
(۱۹۶۸ء)
آج بھی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more