ایسا اندھیر تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو!
لَو چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی
آندھیوں سے کبھی سورج نہ بجھا تھا لوگو!
آئنہ اتنا مکدّر ہو کہ اپنا چہرہ
دیکھنا چاہیں تو اغیار کا دھوکا کھائیں
ریت کے ڈھیر پہ ہو محملِ ارماں کا گماں
منزلیں کاسئہ دریوزہ گری بن جائیں
قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزر گاہوں میں
لوٹنے والوں نے کیا عزم سفر بھی لوٹا!
دجلۂ خوں تو نئی بات نہیں ہے ، یہ کہو
وہ جو ڈوبا ہے، سفینہ ہے کہ ساحل ڈوبا
جاوۂ شوق کہ ہے مسجد ِاقصیٰ پہلے
دل بھی قبلہ ہے ، یہ قبلہ نہ ڈھہا تھا پہلے
نا مناسب تو نہ تھا شعلہ بیاں بھی ہوتے
تم مگر شعلہ بہ دل ، شعلہ بہ جاں بھی ہوتے
تم تو خورشید بکف تھے سرِ بازارِ وفا
کیوں حریف ِ نگہ ِ چشمِ تماشا نہ ہوئے
کس کی جانب نگراں تھے کہلگی ہے ٹھوکر
تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے
اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی
اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم نہ تھی
رَن سے آتے تھے تو باطبلِ ظفر آتے تھے
ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سر جاتے تھے
مٹ نہ پائے تھے بگولوں سے نقوشِ کفِ پا
ان رہوں میں ہیں رسولوں کے نقوشِ کفِ پا
متحرم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ
ہے یہاں سرورِ کونین کے سجدے کا نشاں
اس ہوا میں مرے آقا کے نفس کی خوشبو
اس حرم میں مرے مولا کی سواری ٹھہری
اس کی عظمت کی قسم ارض و سما نے کھائی
تم نے کچھ قبلۂ اوّل کے نگہبان! سنا؟
حرمتِ سجدہ گہ ِ شاہ کا فرمان سنا؟
زندگی مرگِ عزیزاں کو تو سہ جاتی ہے
مرگِ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی
جس میں جل جائے تو خاکسترِ دل بھی نہ ملے
اور تپ جائے تو کندن ہے وجودِ انساں
پھر یہ پگھلے ہوئے لمحات کراں تا بہ کراں
آپ مینارۂ انوار میں ڈھل جاتے ہیں
عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں
خارزاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش
آج پھر رحمتِ یزداں کاسزا وار آئے
وادیِ گل سے ببولوں کا خریدار آئے
دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاں دار آئے
پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے
ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آجائے
ہوش والو! کوئی تلقینِ جنوں فرمائے
(۱۹۶۷ء)
ایسا اندھیر تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو!
لَو چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی
آندھیوں سے کبھی سورج نہ بجھا تھا لوگو!
آئنہ اتنا مکدّر ہو کہ اپنا چہرہ
دیکھنا چاہیں تو اغیار کا دھوکا کھائیں
ریت کے ڈھیر پہ ہو محملِ ارماں کا گماں
منزلیں کاسئہ دریوزہ گری بن جائیں
قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزر گاہوں میں
لوٹنے والوں نے کیا عزم سفر بھی لوٹا!
دجلۂ خوں تو نئی بات نہیں ہے ، یہ کہو
وہ جو ڈوبا ہے، سفینہ ہے کہ ساحل ڈوبا
جاوۂ شوق کہ ہے مسجد ِاقصیٰ پہلے
دل بھی قبلہ ہے ، یہ قبلہ نہ ڈھہا تھا پہلے
نا مناسب تو نہ تھا شعلہ بیاں بھی ہوتے
تم مگر شعلہ بہ دل ، شعلہ بہ جاں بھی ہوتے
تم تو خورشید بکف تھے سرِ بازارِ وفا
کیوں حریف ِ نگہ ِ چشمِ تماشا نہ ہوئے
کس کی جانب نگراں تھے کہلگی ہے ٹھوکر
تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے
اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی
اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم نہ تھی
رَن سے آتے تھے تو باطبلِ ظفر آتے تھے
ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سر جاتے تھے
مٹ نہ پائے تھے بگولوں سے نقوشِ کفِ پا
ان رہوں میں ہیں رسولوں کے نقوشِ کفِ پا
متحرم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ
ہے یہاں سرورِ کونین کے سجدے کا نشاں
اس ہوا میں مرے آقا کے نفس کی خوشبو
اس حرم میں مرے مولا کی سواری ٹھہری
اس کی عظمت کی قسم ارض و سما نے کھائی
تم نے کچھ قبلۂ اوّل کے نگہبان! سنا؟
حرمتِ سجدہ گہ ِ شاہ کا فرمان سنا؟
زندگی مرگِ عزیزاں کو تو سہ جاتی ہے
مرگِ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی
جس میں جل جائے تو خاکسترِ دل بھی نہ ملے
اور تپ جائے تو کندن ہے وجودِ انساں
پھر یہ پگھلے ہوئے لمحات کراں تا بہ کراں
آپ مینارۂ انوار میں ڈھل جاتے ہیں
عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں
خارزاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش
آج پھر رحمتِ یزداں کاسزا وار آئے
وادیِ گل سے ببولوں کا خریدار آئے
دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاں دار آئے
پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے
ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آجائے
ہوش والو! کوئی تلقینِ جنوں فرمائے
(۱۹۶۷ء)
مسجدِ اقصیٰ
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more