پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
آکے بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے
کتنی ویران گزر گاہوں سے
سلسلے خواب کے ملتے ہوں گے
آس ٹوٹے گی نہ جی سنبھلے گا
چاکِ دل بھی کہیں سلتے ہوں گے
صبح زنداں میں بھی ہوتی ہوگی
پھول مقتل میں بھی کھلتے ہوں گے
ہم بھی خوشبو ہیں ، صبا سے کہیو
ہم نفس روز نہ ملتے ہوں گے
اجنبی شہر میں اپنوں سے اداؔ
اتفاقاً بھی تو ملتے ہوں گے
(۱۹۶۸ء)
پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
آکے بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے
کتنی ویران گزر گاہوں سے
سلسلے خواب کے ملتے ہوں گے
آس ٹوٹے گی نہ جی سنبھلے گا
چاکِ دل بھی کہیں سلتے ہوں گے
صبح زنداں میں بھی ہوتی ہوگی
پھول مقتل میں بھی کھلتے ہوں گے
ہم بھی خوشبو ہیں ، صبا سے کہیو
ہم نفس روز نہ ملتے ہوں گے
اجنبی شہر میں اپنوں سے اداؔ
اتفاقاً بھی تو ملتے ہوں گے
(۱۹۶۸ء)
پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more