کہیں سچا اجلا رنگ |
کہیں پھیکا پھیکا روپ |
کہیں چھاؤں رہے کہیں دھوپ |
کبھی زلفوں جیسا جیون بھر کے اندھیاروں کے رنگ |
کبھی چاندی جیسی لٹ اور کرنوں جیسا رنگ |
کوئی جس کا بھاؤ نہ مول |
یہی سوکھے ہونٹوں ٹوٹے پھوٹے بول |
یہی رنگ رچے ہے ارمانوں کے تول |
کہیں آنکھیں ساون بھادوں |
کہیں جیٹھ اساڑھ کی پیاس |
کہیں پروائی کی بھینی بھینی پھوار |
کہیں اوس بنے کہیں آس |
کہیں رنگ جمے اور خوب جمے |
کہیں بدلے سوسو بھیس |
کبھی اپنا گاؤں کا گاؤں |
کبھی گھر آنگن پردیس |
رہے رنگ کے روپ ہزار |
رنگ کے راز نگاہوں پہ کھلیں یا نہ کھلیں |
رات کی گود میں ہر آنکھ خمار آلودہ |
جس طرح رنگ خزاں رنگ بہار آلودہ |
اجنبی روپ میں گھلتا ہوا پہچان کا رنگ |
آئنے آئنے بکھرا ہوا انسان کا رنگ |
رنگ سو جائے تو خوابوں کا اُجالا نہ رہے |
غم کو اندازۂ احسانِ تمناّ نہ رہے |
دل کے بس میں بھی مدارات مسیحا نہ رہے |
وحشتِ جاں سے کبھی نامہ و پیغام نہ ہو |
پوری بستی میں کوئی صاحبِ الہام نہ ہو |
رنگ وہ زلف کہ چھٹکے تو گھٹا کہلائے |
راہ دکھلائیں مہکتے ہوئے روشن سائے |
فرض ہوتا ہے یہاں اوس کے قطروں سے وضو |
رنگ جاگا ہے تو بیدار ہوئے اہلِ سبو |
رنگ پختہ ہو تو صحرا میں شہیدوں کا لہو |
رنگ سہمے ہوئے ہاتھوں میں عزیمت کا دیا |
ڈوبتے چاند سے خورشید کا پیمانِ وفا |
رنگ چمکا ہے تونکھرا ہے فسوں کا رشتہ |
رنگ کھو جائے تو کھو جائے جنون کا رشتہ |
آنکھ میں ہے تو بہر رنگ شرار آلودہ |
آنکھ سے گر کے مگر رنگ غبار آلودہ |
(۱۹۶۸ء) |
کہیں سچا اجلا رنگ |
کہیں پھیکا پھیکا روپ |
کہیں چھاؤں رہے کہیں دھوپ |
کبھی زلفوں جیسا جیون بھر کے اندھیاروں کے رنگ |
کبھی چاندی جیسی لٹ اور کرنوں جیسا رنگ |
کوئی جس کا بھاؤ نہ مول |
یہی سوکھے ہونٹوں ٹوٹے پھوٹے بول |
یہی رنگ رچے ہے ارمانوں کے تول |
کہیں آنکھیں ساون بھادوں |
کہیں جیٹھ اساڑھ کی پیاس |
کہیں پروائی کی بھینی بھینی پھوار |
کہیں اوس بنے کہیں آس |
کہیں رنگ جمے اور خوب جمے |
کہیں بدلے سوسو بھیس |
کبھی اپنا گاؤں کا گاؤں |
کبھی گھر آنگن پردیس |
رہے رنگ کے روپ ہزار |
رنگ کے راز نگاہوں پہ کھلیں یا نہ کھلیں |
رات کی گود میں ہر آنکھ خمار آلودہ |
جس طرح رنگ خزاں رنگ بہار آلودہ |
اجنبی روپ میں گھلتا ہوا پہچان کا رنگ |
آئنے آئنے بکھرا ہوا انسان کا رنگ |
رنگ سو جائے تو خوابوں کا اُجالا نہ رہے |
غم کو اندازۂ احسانِ تمناّ نہ رہے |
دل کے بس میں بھی مدارات مسیحا نہ رہے |
وحشتِ جاں سے کبھی نامہ و پیغام نہ ہو |
پوری بستی میں کوئی صاحبِ الہام نہ ہو |
رنگ وہ زلف کہ چھٹکے تو گھٹا کہلائے |
راہ دکھلائیں مہکتے ہوئے روشن سائے |
فرض ہوتا ہے یہاں اوس کے قطروں سے وضو |
رنگ جاگا ہے تو بیدار ہوئے اہلِ سبو |
رنگ پختہ ہو تو صحرا میں شہیدوں کا لہو |
رنگ سہمے ہوئے ہاتھوں میں عزیمت کا دیا |
ڈوبتے چاند سے خورشید کا پیمانِ وفا |
رنگ چمکا ہے تونکھرا ہے فسوں کا رشتہ |
رنگ کھو جائے تو کھو جائے جنون کا رشتہ |
آنکھ میں ہے تو بہر رنگ شرار آلودہ |
آنکھ سے گر کے مگر رنگ غبار آلودہ |
(۱۹۶۸ء) |