وہی ناصبوریِ آرزو ، وہی نقشِ پا ، وہی جادہ ہے |
کوئی سنگِ رہ کو خبر کرو ، اُسی آستاں کا ارادہ ہے |
وہی اشکِ خوں کے گلاب ہیں ، وہی خار خار ہے پیرہن |
نہ کرم کی آس بجھی ابھی ، نہ ستم کی دُھوپ زیادہ ہے |
ابھی روشنی کی لکیر سی سرِ رہ گزار ہے جاں بلب |
کسی دل کی آس مٹی نہیں ، کہیں اک دریچہ کشادہ ہے |
تنِ زخم زخم کو چھوڑ دے ، مرے چارہ گر ، مرے مہرباں |
دل داغ داغ کا حوصلہ تری مرحمت سے زیادہ ہے |
جونظر بچا کے گزر گئے تو نہ آسکو گے پلٹ کے تم |
بڑی محترم ہے یہ بے بسی کہ خلوصِ جاں کا لبادہ ہے |
یہی زندگی ہے بری بھلی ، یہ کشیدہ سر ، یہ برہنہ پا |
نہ غبارِ راہ سے مضمحل ، نہ سکونِ جاں کا اعادہ ہے |
مرا افتخارِ وفا تلک مجھے راس آ نہ سکا اداؔ |
ترا نام جس پہ لکھا رہا ، وہ کتاب آج بھی سادہ ہے |
(۱۹۷۳ء) |
وہی ناصبوریِ آرزو ، وہی نقشِ پا ، وہی جادہ ہے |
کوئی سنگِ رہ کو خبر کرو ، اُسی آستاں کا ارادہ ہے |
وہی اشکِ خوں کے گلاب ہیں ، وہی خار خار ہے پیرہن |
نہ کرم کی آس بجھی ابھی ، نہ ستم کی دُھوپ زیادہ ہے |
ابھی روشنی کی لکیر سی سرِ رہ گزار ہے جاں بلب |
کسی دل کی آس مٹی نہیں ، کہیں اک دریچہ کشادہ ہے |
تنِ زخم زخم کو چھوڑ دے ، مرے چارہ گر ، مرے مہرباں |
دل داغ داغ کا حوصلہ تری مرحمت سے زیادہ ہے |
جونظر بچا کے گزر گئے تو نہ آسکو گے پلٹ کے تم |
بڑی محترم ہے یہ بے بسی کہ خلوصِ جاں کا لبادہ ہے |
یہی زندگی ہے بری بھلی ، یہ کشیدہ سر ، یہ برہنہ پا |
نہ غبارِ راہ سے مضمحل ، نہ سکونِ جاں کا اعادہ ہے |
مرا افتخارِ وفا تلک مجھے راس آ نہ سکا اداؔ |
ترا نام جس پہ لکھا رہا ، وہ کتاب آج بھی سادہ ہے |
(۱۹۷۳ء) |