مجھے منظور تھی راحت نہ سکونِ ابدی
میں گنہ گار مجھے سوزِ نہاں کافی تھا
میری وارستگیِ جاں کو
جہانِ گزراں کافی تھا
عشرت ِدرد کو سمجھا تھا خزینہ اپنا
میں نے سونپا تھا محبت کو سفینہ اپنا
تو نے دیکھا مرے ماتھے پہ لہو کا قشقہ
میری آزردہ ہتھیلی میں لہو کی مہندی
میری مجبور نگاہوں میں لہو کا نوحہ
میری چاہت بھی، مرے خوابِ کرم بھی گھائل
حد تو یہ ہے مرے غم بھی گھائل
پس ِزنداں مرے سرو و ریحاں
لالہ و گل مرے زنجیر بکف دیکھے ہیں
جانے کس ہاتھ نے، تو جانتا ہے
میرے آنگن کے اُجالوں میں لہو گھول دیا
اور میں زندہ ہوں
زندگی کے کہیں مجھ سے بھی ہدف دیکھے ہیں؟
(۱۹۷۲ء)
مجھے منظور تھی راحت نہ سکونِ ابدی
میں گنہ گار مجھے سوزِ نہاں کافی تھا
میری وارستگیِ جاں کو
جہانِ گزراں کافی تھا
عشرت ِدرد کو سمجھا تھا خزینہ اپنا
میں نے سونپا تھا محبت کو سفینہ اپنا
تو نے دیکھا مرے ماتھے پہ لہو کا قشقہ
میری آزردہ ہتھیلی میں لہو کی مہندی
میری مجبور نگاہوں میں لہو کا نوحہ
میری چاہت بھی، مرے خوابِ کرم بھی گھائل
حد تو یہ ہے مرے غم بھی گھائل
پس ِزنداں مرے سرو و ریحاں
لالہ و گل مرے زنجیر بکف دیکھے ہیں
جانے کس ہاتھ نے، تو جانتا ہے
میرے آنگن کے اُجالوں میں لہو گھول دیا
اور میں زندہ ہوں
زندگی کے کہیں مجھ سے بھی ہدف دیکھے ہیں؟
(۱۹۷۲ء)
تو جانتا ہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more