(واشنگٹن)

وہی نقیب ِصبحِ نو
کہ رُوئے آفتاب تیرگی کی اوٹ ہے
وداعِ شب کی ساعتیں
(وہ جن کا انتظار عمر بھر رہا)
وہی شفق کی آبجو
وہی سفینۂ صبا
وہی جمالِ رُوبرو
وہی سیاہ پیر ہن کی سرخ و زرد گوٹ ہے
ہزار کوس میرے ساتھ چل کے آئی ہیں
مری سحر کی سرخیاں
مری طویل رات کی سیاہیاں
بہار کی ہنسی وہی
خزاں کی بے بسی وہی
وہی طلب— کہ ناز جو
وہی حیا کی آرزو
وہی نگاہ کے فسوں کا رنگ ہے
وہ رنگ سرخ و ارغواں
جو میرے خوں کا رنگ ہے
جو میری آنکھ، میرے دل سے پھوٹتا رہا
تری جبیں پہ فخر و انبساط و زندگی کی لو
غرورِشہ پری کی ضو
تری سحر بھی گل عذار و لالہ رُو
مری سحر بھی میرے عکسِ خواب سے لہو لہو
شفق نہادِ رنگ ہے
اُفق سوادِ رنگ ہے
یہ اتّصالِ رنگ بھی مگر تضادِ رنگ ہے
تری سحر کے پاس میرے دن کی روشنی نہیں!
(۱۹۶۸ء)

(واشنگٹن)

وہی نقیب ِصبحِ نو
کہ رُوئے آفتاب تیرگی کی اوٹ ہے
وداعِ شب کی ساعتیں
(وہ جن کا انتظار عمر بھر رہا)
وہی شفق کی آبجو
وہی سفینۂ صبا
وہی جمالِ رُوبرو
وہی سیاہ پیر ہن کی سرخ و زرد گوٹ ہے
ہزار کوس میرے ساتھ چل کے آئی ہیں
مری سحر کی سرخیاں
مری طویل رات کی سیاہیاں
بہار کی ہنسی وہی
خزاں کی بے بسی وہی
وہی طلب— کہ ناز جو
وہی حیا کی آرزو
وہی نگاہ کے فسوں کا رنگ ہے
وہ رنگ سرخ و ارغواں
جو میرے خوں کا رنگ ہے
جو میری آنکھ، میرے دل سے پھوٹتا رہا
تری جبیں پہ فخر و انبساط و زندگی کی لو
غرورِشہ پری کی ضو
تری سحر بھی گل عذار و لالہ رُو
مری سحر بھی میرے عکسِ خواب سے لہو لہو
شفق نہادِ رنگ ہے
اُفق سوادِ رنگ ہے
یہ اتّصالِ رنگ بھی مگر تضادِ رنگ ہے
تری سحر کے پاس میرے دن کی روشنی نہیں!
(۱۹۶۸ء)
تضادِ رنگ
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more