شب چراغ آج کہاں سے لاؤں
کل اُجالے مری مژگاں پہ اُتر آئے تھے
رات پر ہول نہ تھی
قلب ویران نہ تھا
آئنوں نے غمِ جاناں کی شہادت دی تھی
آنکھ نے کوئے نگاراں کی بشارت دی تھی
شعلۂ خوں کے ایاغ آج کہاں سے لاؤں
شب چراغ آج کہاں سے لاؤں
اب یہ مژگاں ہیں کہ نیزے کی اَنی ہو جیسے
آسمانوں سے فقط خاک چھنی ہو جیسے
آئنے گرد ہوئے
دل ہے آپ اپنی صلیب
روز محشر بھی نہیں زحمتِ غم بھی نہ رہی
فرصتِ غم بھی نہیں، رخصتِ غم بھی نہ رہی
(۱۹۷۱ء)
شب چراغ آج کہاں سے لاؤں
کل اُجالے مری مژگاں پہ اُتر آئے تھے
رات پر ہول نہ تھی
قلب ویران نہ تھا
آئنوں نے غمِ جاناں کی شہادت دی تھی
آنکھ نے کوئے نگاراں کی بشارت دی تھی
شعلۂ خوں کے ایاغ آج کہاں سے لاؤں
شب چراغ آج کہاں سے لاؤں
اب یہ مژگاں ہیں کہ نیزے کی اَنی ہو جیسے
آسمانوں سے فقط خاک چھنی ہو جیسے
آئنے گرد ہوئے
دل ہے آپ اپنی صلیب
روز محشر بھی نہیں زحمتِ غم بھی نہ رہی
فرصتِ غم بھی نہیں، رخصتِ غم بھی نہ رہی
(۱۹۷۱ء)
شب چراغ آج کہاں سے لاؤں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more