لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے |
آج کی رات ہے تاریک ، مسافت بھی کڑی |
جیسے سینے پہ کوئی برف کی سل آن پڑی |
اب نہ دیدار کا مژدہ ، نہ جدائی کی گھڑی |
اک خلش سی ہے جسے نام کوئی دے نہ سکوں |
نہ رفاقت ، نہ مروّت ، نہ محبت ، نہ جنوں |
کچھ تو ہو گرمیِ محفل کا بہانہ ساتھی |
جی بہل جائے گا ، زخموں کی نمائش ہی سہی |
بارشِ سنگ سے ہر پیکرِ گل زخمی ہے |
کہیں آدرش ہے گھائل کہیں دل زخمی ہے |
سوچتی ہوں کہکہوں بھی تو بھلا کس سے کہوں |
اِن میں وہ سنگِ ملامت بھی تو شامل ہوں گے |
جن کی زد پر سبھی اپنے ہیں ، کوئی غیر نہیں |
پھول سے ہاتھ میں پتھر کی خراشیں ہی گنوں |
درد چمکا ہے اندھیرے میں تو جی ٹھہرا ہے |
لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکو ں ملتا ہے |
میں وہ بے صبرکہ جینے کے بہانے ڈھونڈوں |
ایک غنچہ نظر آئے تو بہاراں سمجھوں |
میں تو آنسو کو بھی رہبر کہوں ، منزل جانوں |
اپنے بیگانے کی تمئیز کہیں ہوتی ہے |
پھول جس شاخ پہ مہکے وہ حسیں ہوتی ہے |
جس کسی لفظ میں پائی ہے صداقت کی مہک |
میں نے اس لفظ کے قدموں پہ جبیں رکھ دی ہے |
جس کسی آنکھ میں دیکھی ہے مروّت کی جھلک |
میں نے اس آنکھ کی حرمت کی قسم کھائی ہے |
کسی ماتھے پہ دمکتی ہوئی شبنم سی کرن |
اُجلا اُجلا سا کسی لہجے کا بے ساختہ پن |
کوئی نادان تمنا ، کوئی معصوم لگن |
مجھ کو انساں کے تقدس کا دلاتے ہیں یقیں |
زندگی دستِ طلب گار سے کچھ دُور نہیں |
اب کے تقدیر انھیں ہاتھوں سے زنجیر کرو |
جاں فگارو! کوئی چارہ کوئی تدبیر کرو |
تیشۂ حرفِ شکایت سے کوئی رات کٹی |
آج کی رات ہے تاریک ، مسافت بھی کڑی |
لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے |
آج کی رات ہے تاریک ، مسافت بھی کڑی |
جیسے سینے پہ کوئی برف کی سل آن پڑی |
اب نہ دیدار کا مژدہ ، نہ جدائی کی گھڑی |
اک خلش سی ہے جسے نام کوئی دے نہ سکوں |
نہ رفاقت ، نہ مروّت ، نہ محبت ، نہ جنوں |
کچھ تو ہو گرمیِ محفل کا بہانہ ساتھی |
جی بہل جائے گا ، زخموں کی نمائش ہی سہی |
بارشِ سنگ سے ہر پیکرِ گل زخمی ہے |
کہیں آدرش ہے گھائل کہیں دل زخمی ہے |
سوچتی ہوں کہکہوں بھی تو بھلا کس سے کہوں |
اِن میں وہ سنگِ ملامت بھی تو شامل ہوں گے |
جن کی زد پر سبھی اپنے ہیں ، کوئی غیر نہیں |
پھول سے ہاتھ میں پتھر کی خراشیں ہی گنوں |
درد چمکا ہے اندھیرے میں تو جی ٹھہرا ہے |
لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکو ں ملتا ہے |
میں وہ بے صبرکہ جینے کے بہانے ڈھونڈوں |
ایک غنچہ نظر آئے تو بہاراں سمجھوں |
میں تو آنسو کو بھی رہبر کہوں ، منزل جانوں |
اپنے بیگانے کی تمئیز کہیں ہوتی ہے |
پھول جس شاخ پہ مہکے وہ حسیں ہوتی ہے |
جس کسی لفظ میں پائی ہے صداقت کی مہک |
میں نے اس لفظ کے قدموں پہ جبیں رکھ دی ہے |
جس کسی آنکھ میں دیکھی ہے مروّت کی جھلک |
میں نے اس آنکھ کی حرمت کی قسم کھائی ہے |
کسی ماتھے پہ دمکتی ہوئی شبنم سی کرن |
اُجلا اُجلا سا کسی لہجے کا بے ساختہ پن |
کوئی نادان تمنا ، کوئی معصوم لگن |
مجھ کو انساں کے تقدس کا دلاتے ہیں یقیں |
زندگی دستِ طلب گار سے کچھ دُور نہیں |
اب کے تقدیر انھیں ہاتھوں سے زنجیر کرو |
جاں فگارو! کوئی چارہ کوئی تدبیر کرو |
تیشۂ حرفِ شکایت سے کوئی رات کٹی |
آج کی رات ہے تاریک ، مسافت بھی کڑی |