اے بہاراں بہاراں نگر! |
کہکشاں کہکشاں راہ میں |
ہم بیاباں نورد آئے ہیں |
تیرے سر شار جلووں کی درگاہ میں |
ہم اندھیری رتوں کے سفیر ان درد آئے ہیں |
رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے |
تیرے ماتھے پہ بھی گرد ہی گرد تھی |
تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی |
آنچلوں کی دھنک بجھ گئی |
عارضوں کی شفق بجھ گئی |
تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں |
جنگ اور موت کی قہر سامانیاں |
تیرا ہیرو شیما |
زخم سا زخم تھا |
اے نگارِ حیات آشنا! |
رات بھی کٹ گئی |
گرد بھی چھٹ گئی |
زخم بھی بھر گئے |
ہے جمالِ تمناّ ثبات آشنا |
تیری کرنوں کا رقصِ صبا زندہ ہے |
تیرے پھولوں کا رنگِ حنا زندہ ہے |
تیری گلیوں میں، اے وادیِ مہرباں |
زندگی سے ہمارا تعارف ہوا—! |
(۱۹۶۸ء) |
اے بہاراں بہاراں نگر! |
کہکشاں کہکشاں راہ میں |
ہم بیاباں نورد آئے ہیں |
تیرے سر شار جلووں کی درگاہ میں |
ہم اندھیری رتوں کے سفیر ان درد آئے ہیں |
رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے |
تیرے ماتھے پہ بھی گرد ہی گرد تھی |
تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی |
آنچلوں کی دھنک بجھ گئی |
عارضوں کی شفق بجھ گئی |
تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں |
جنگ اور موت کی قہر سامانیاں |
تیرا ہیرو شیما |
زخم سا زخم تھا |
اے نگارِ حیات آشنا! |
رات بھی کٹ گئی |
گرد بھی چھٹ گئی |
زخم بھی بھر گئے |
ہے جمالِ تمناّ ثبات آشنا |
تیری کرنوں کا رقصِ صبا زندہ ہے |
تیرے پھولوں کا رنگِ حنا زندہ ہے |
تیری گلیوں میں، اے وادیِ مہرباں |
زندگی سے ہمارا تعارف ہوا—! |
(۱۹۶۸ء) |