(ٹوکیو)

اے بہاراں بہاراں نگر!
کہکشاں کہکشاں راہ میں
ہم بیاباں نورد آئے ہیں
تیرے سر شار جلووں کی درگاہ میں
ہم اندھیری رتوں کے سفیر ان درد آئے ہیں
رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے
تیرے ماتھے پہ بھی گرد ہی گرد تھی
تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی
آنچلوں کی دھنک بجھ گئی
عارضوں کی شفق بجھ گئی
تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں
جنگ اور موت کی قہر سامانیاں
تیرا ہیرو شیما
زخم سا زخم تھا
اے نگارِ حیات آشنا!
رات بھی کٹ گئی
گرد بھی چھٹ گئی
زخم بھی بھر گئے
ہے جمالِ تمناّ ثبات آشنا
تیری کرنوں کا رقصِ صبا زندہ ہے
تیرے پھولوں کا رنگِ حنا زندہ ہے
تیری گلیوں میں، اے وادیِ مہرباں
زندگی سے ہمارا تعارف ہوا—!
(۱۹۶۸ء)

(ٹوکیو)

اے بہاراں بہاراں نگر!
کہکشاں کہکشاں راہ میں
ہم بیاباں نورد آئے ہیں
تیرے سر شار جلووں کی درگاہ میں
ہم اندھیری رتوں کے سفیر ان درد آئے ہیں
رات کے درد سے تو بھی آگاہ ہے
تیرے ماتھے پہ بھی گرد ہی گرد تھی
تیری جھولی میں بھی راکھ ہی راکھ تھی
آنچلوں کی دھنک بجھ گئی
عارضوں کی شفق بجھ گئی
تو نے جھیلیں کڑے وقت کی زہر افشانیاں
جنگ اور موت کی قہر سامانیاں
تیرا ہیرو شیما
زخم سا زخم تھا
اے نگارِ حیات آشنا!
رات بھی کٹ گئی
گرد بھی چھٹ گئی
زخم بھی بھر گئے
ہے جمالِ تمناّ ثبات آشنا
تیری کرنوں کا رقصِ صبا زندہ ہے
تیرے پھولوں کا رنگِ حنا زندہ ہے
تیری گلیوں میں، اے وادیِ مہرباں
زندگی سے ہمارا تعارف ہوا—!
(۱۹۶۸ء)
رسمِ تعارف
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more