تمھاری جستجو مجھے
کہاں کہاں لیے پھری
مجھے وہ دن بھی یاد ہے
بچھڑتی ساعتوں نے سسکیاں بھریں
رفاقیتں صدائیں دیتی رہ گئیں
یہ نکہتوں کے قافلے
پلٹ کے پھرنہ آئیں گے
یہ اک سحر طلوع پھر کبھی نہ ہوسکے گی سوچ لو
اس ایک دن اس ایک شب
تمھاری حکمرانیوں میں ارض و مہر و ماہ ہیں
ستارے گردِ راہ ہیں
نیا اُفق نظر کی انتہا ہے، ابتدا نہیں
یہ لالہ گوں شفق طلسم رنگ کے سوا نہیں
کہاں چلیں...
ہرے بھرے شجر کی مہرباں
اُداس چھاؤں دُور تک مجھے بتانے آئی تھی
کہ راہ میں فقط گھنے درخت ہی نہیں
بدلتے موسموں کی سختیاں بھی ہیں
دشتِ بے اماں بھی ہیں
مرے نحیف بازوؤں کو چوم کر
مرے قدم پہ شاخ شاخ جھک گئی تھی پیار سے
...دہکتے ریگ زار میں
سراب بھی فرات بھی
فرات کے سبو میں تشنگی بھی ہے
لباسِ ذات میں ہے پوری کائنات بھی
تو کائناتِ ذات کی شکست و برہمی بھی ہے
بکھر گئیں اگر تو کیا کرو گی تم
تمام کرچیاں نہ چن سکو گی تم...
کلی کلی کی چشم ِتر
اُمنڈتے آنسوؤں کو پونچھ کر
دُعائیں دیتی رہ گئی
نہ جانے کیوں مجھے یہ اعتبار تھا
مکینِ دل! صباحِ جاں!
تمھیں بھی میرا انتظار تھا
طویل رہ کے پیچ و خم
مرے فگار جسم ناتواں سے شرم سار ہیں
مسافتوں کی گرد سے
مری جبیں کا رنگ اور بھی نکھر گیا
صعوبتوں کی دُھوپ میں
مرے غرور کا جمال اور بھی سنور گیا
تمھارے سامنے کھڑی ہوئی
میں داد خواہ بھی نہیں
کچھ اشتباہ بھی نہیں
تم آج بھی مرے ہر ایک خواب سے حسین ہو
کہ آج بھی مری نگاہِ شوق کا یقین ہو
تمھاری آرزو مجھے
جہانِ بے جہات میں
زماں زماں لیے پھری
مری طلب کا ناز آج تک شکست آشنا نہ تھا
وہ کون سا فسانہ تھا
جو میں نے مصحف ِنیاز میں لکھا نہ تھا
تم اس قدر خموش ہو کہ کیا کہوں
وہ دل نوازی ِفسوں
خدا نکردہ کس غبارِ مضمحل میں کھو گئی
تم آج میرے سامنے ہو میرے اپنے اجنبی!
نہ جانے آئنہ شکستہ ہے
کہ آج تھک گئی ہوں میں—!؟
تمھاری جستجو مجھے
کہاں کہاں لیے پھری
مجھے وہ دن بھی یاد ہے
بچھڑتی ساعتوں نے سسکیاں بھریں
رفاقیتں صدائیں دیتی رہ گئیں
یہ نکہتوں کے قافلے
پلٹ کے پھرنہ آئیں گے
یہ اک سحر طلوع پھر کبھی نہ ہوسکے گی سوچ لو
اس ایک دن اس ایک شب
تمھاری حکمرانیوں میں ارض و مہر و ماہ ہیں
ستارے گردِ راہ ہیں
نیا اُفق نظر کی انتہا ہے، ابتدا نہیں
یہ لالہ گوں شفق طلسم رنگ کے سوا نہیں
کہاں چلیں...
ہرے بھرے شجر کی مہرباں
اُداس چھاؤں دُور تک مجھے بتانے آئی تھی
کہ راہ میں فقط گھنے درخت ہی نہیں
بدلتے موسموں کی سختیاں بھی ہیں
دشتِ بے اماں بھی ہیں
مرے نحیف بازوؤں کو چوم کر
مرے قدم پہ شاخ شاخ جھک گئی تھی پیار سے
...دہکتے ریگ زار میں
سراب بھی فرات بھی
فرات کے سبو میں تشنگی بھی ہے
لباسِ ذات میں ہے پوری کائنات بھی
تو کائناتِ ذات کی شکست و برہمی بھی ہے
بکھر گئیں اگر تو کیا کرو گی تم
تمام کرچیاں نہ چن سکو گی تم...
کلی کلی کی چشم ِتر
اُمنڈتے آنسوؤں کو پونچھ کر
دُعائیں دیتی رہ گئی
نہ جانے کیوں مجھے یہ اعتبار تھا
مکینِ دل! صباحِ جاں!
تمھیں بھی میرا انتظار تھا
طویل رہ کے پیچ و خم
مرے فگار جسم ناتواں سے شرم سار ہیں
مسافتوں کی گرد سے
مری جبیں کا رنگ اور بھی نکھر گیا
صعوبتوں کی دُھوپ میں
مرے غرور کا جمال اور بھی سنور گیا
تمھارے سامنے کھڑی ہوئی
میں داد خواہ بھی نہیں
کچھ اشتباہ بھی نہیں
تم آج بھی مرے ہر ایک خواب سے حسین ہو
کہ آج بھی مری نگاہِ شوق کا یقین ہو
تمھاری آرزو مجھے
جہانِ بے جہات میں
زماں زماں لیے پھری
مری طلب کا ناز آج تک شکست آشنا نہ تھا
وہ کون سا فسانہ تھا
جو میں نے مصحف ِنیاز میں لکھا نہ تھا
تم اس قدر خموش ہو کہ کیا کہوں
وہ دل نوازی ِفسوں
خدا نکردہ کس غبارِ مضمحل میں کھو گئی
تم آج میرے سامنے ہو میرے اپنے اجنبی!
نہ جانے آئنہ شکستہ ہے
کہ آج تھک گئی ہوں میں—!؟
ناپشیماں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more