نہ بام و دشت ، نہ دریا ، نہ کو ہسار ملے |
جنوں کی راہ تھی حالات سازگار ملے |
لبوں پہ حرفِ شکایت بھی آکے ٹوٹ گیا |
وہ خود فگار تھے جو ہاتھ سنگ بار ملے |
اِدھر فصیلِ شب غم ، اُدھر ہے شہر پناہ |
صبا سے کہیو ، وہی آکے ایک بار ملے |
یہ بے بسی تو مرے عہد کا مقدر تھی |
دلوں کو داغِ تمنا بھی مستعار ملے |
ہتھیلیوں پہ چراغِ دعا سجائے ہوئے |
ملے نگار ِ بہاراں تو شرم سار ملے |
کوئی تو راہِ تمنا میں ہم سفر ہوتا |
کوئی تو کوئے وفا میں خطا شعار ملے |
محبتوں سے تو پہلے ہی کیا توقع تھی |
مروّ توں کے بھی دامان تار تار ملے |
میں کیسے اپنے خدوخال آج پہچانوں |
جوآئنہ ملے ، آلودۂ غبار ملے |
مری طلب کی یہ معراج ہے کہ عجز اداؔ |
جدھر سے گزروں ، وہی ایک رہ گزار ملے |
(۱۹۷۱ء) |
نہ بام و دشت ، نہ دریا ، نہ کو ہسار ملے |
جنوں کی راہ تھی حالات سازگار ملے |
لبوں پہ حرفِ شکایت بھی آکے ٹوٹ گیا |
وہ خود فگار تھے جو ہاتھ سنگ بار ملے |
اِدھر فصیلِ شب غم ، اُدھر ہے شہر پناہ |
صبا سے کہیو ، وہی آکے ایک بار ملے |
یہ بے بسی تو مرے عہد کا مقدر تھی |
دلوں کو داغِ تمنا بھی مستعار ملے |
ہتھیلیوں پہ چراغِ دعا سجائے ہوئے |
ملے نگار ِ بہاراں تو شرم سار ملے |
کوئی تو راہِ تمنا میں ہم سفر ہوتا |
کوئی تو کوئے وفا میں خطا شعار ملے |
محبتوں سے تو پہلے ہی کیا توقع تھی |
مروّ توں کے بھی دامان تار تار ملے |
میں کیسے اپنے خدوخال آج پہچانوں |
جوآئنہ ملے ، آلودۂ غبار ملے |
مری طلب کی یہ معراج ہے کہ عجز اداؔ |
جدھر سے گزروں ، وہی ایک رہ گزار ملے |
(۱۹۷۱ء) |