آؤ صف بستہ بہ تکریم کھڑے ہوجاؤ
آؤ اُس غمزۂ غماز کا دیدار کرو
جس کو پوجا ہے ، اُسی بت کا نظارہ ہوگا
آج کے روز تو آنکھوں پہ نہ پردہ ہوگا
اب کہاں ہے کہ متاعِ دل و جاں لے کے چلیں
ہاتھ خالی ہیں مگر جنسِ گراں لے کے چلیں
اپنا سرمایہ یہ داماں ، یہ دریدہ آنچل
اس قدر سادہ نہیں ، اتنا بھی کم مایہ نہیں
ہے یہ تاریخ کے بے باک اُجالوں کا امیں
اس کے ہر تار میں خورشید ٹکے ہیں ، دیکھو
اب بھی روشن ہیں وفاؤں کے مقدس آنسو
میرے قاتل ، ترے ہاتھوں سے ٹپکتا ہے لہو
اتنی ارزاں تو نہ تھی خونِ جگر کی سرخی
تنگ داماں بھی نہیں میرا دریدہ پلو
عہد در عہد ملا دستِ حنائی کو خراج
نجد در نجد ہوا خاک نصیبوں کا علاج
روز تصنیف ہوئے عرضِ وفا کے نسخے
عصر در عصر چلے ناز بتاں کے چرچے
بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیے ، اس کو دعا بھی دی ہے
وہ جو طوفاں کو سفینہ کبھی ساحل سمجھے
یورشِ قطرۂ شبنم سے خفا کیا ہوں گے
ایک بار اور حسابِ دل و دل دار کرو
نقد جاں نذر ہوئی ، جنسِ یقیں لے کے چلو
حجلۂ ناز سے آتے ہیں بلاوے — اب کے
آخری بارِ چلو — آخری دیدار کرو
(۱۹۷۰ء)
آؤ صف بستہ بہ تکریم کھڑے ہوجاؤ
آؤ اُس غمزۂ غماز کا دیدار کرو
جس کو پوجا ہے ، اُسی بت کا نظارہ ہوگا
آج کے روز تو آنکھوں پہ نہ پردہ ہوگا
اب کہاں ہے کہ متاعِ دل و جاں لے کے چلیں
ہاتھ خالی ہیں مگر جنسِ گراں لے کے چلیں
اپنا سرمایہ یہ داماں ، یہ دریدہ آنچل
اس قدر سادہ نہیں ، اتنا بھی کم مایہ نہیں
ہے یہ تاریخ کے بے باک اُجالوں کا امیں
اس کے ہر تار میں خورشید ٹکے ہیں ، دیکھو
اب بھی روشن ہیں وفاؤں کے مقدس آنسو
میرے قاتل ، ترے ہاتھوں سے ٹپکتا ہے لہو
اتنی ارزاں تو نہ تھی خونِ جگر کی سرخی
تنگ داماں بھی نہیں میرا دریدہ پلو
عہد در عہد ملا دستِ حنائی کو خراج
نجد در نجد ہوا خاک نصیبوں کا علاج
روز تصنیف ہوئے عرضِ وفا کے نسخے
عصر در عصر چلے ناز بتاں کے چرچے
بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیے ، اس کو دعا بھی دی ہے
وہ جو طوفاں کو سفینہ کبھی ساحل سمجھے
یورشِ قطرۂ شبنم سے خفا کیا ہوں گے
ایک بار اور حسابِ دل و دل دار کرو
نقد جاں نذر ہوئی ، جنسِ یقیں لے کے چلو
حجلۂ ناز سے آتے ہیں بلاوے — اب کے
آخری بارِ چلو — آخری دیدار کرو
(۱۹۷۰ء)
لہو لہو راستے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more