تم جو قاتل نہ مسیحا ٹھہرے |
نہ علاجِ شبِ ہجراں، نہ غمِ چارہ گراں |
نہ کوئی دشنۂ پنہاں |
نہ کہیں خنجر سم آلودہ |
نہ قریبِ رگ جاں |
تم تو اُس عہد کے انساں ہو، جسے |
وادیِ مرگ میں جینے کا ہنر آتا تھا |
مدتوں پہلے بھی جب رختِ سفر باندھا تھا |
ہاتھ جب دستِ دعا تھے اپنے |
پاؤں زنجیر کے حلقوں سے کٹے جاتے تھے |
لفظ تقصیر تھے |
آواز پہ تعزیریں تھیں |
تم نے معصوم جسارت کی تھی |
اک تمنا کی عبادت کی تھی |
پا برہنہ تھے تمھارے |
یہی بوسیدہ قبا تھی تن پر |
اور یہی سرخ— لہو کے دھبے |
جنھیں تحریرِ گل و لالہ کہا تھا تم نے |
ہر نظارے پئے نظار گی جاں تم کو |
ہر گلی کوچۂ محبوب نظر آئی تھی |
رات کو زلف سے تعبیر کیا تھا تم نے |
تم بھلا کیوں رسن و دار تک آ پہنچے ہو |
تم نہ منصور نہ عیسیٰ ٹھہرے—!؟ |
(۱۹۷۱ء) |
تم جو قاتل نہ مسیحا ٹھہرے |
نہ علاجِ شبِ ہجراں، نہ غمِ چارہ گراں |
نہ کوئی دشنۂ پنہاں |
نہ کہیں خنجر سم آلودہ |
نہ قریبِ رگ جاں |
تم تو اُس عہد کے انساں ہو، جسے |
وادیِ مرگ میں جینے کا ہنر آتا تھا |
مدتوں پہلے بھی جب رختِ سفر باندھا تھا |
ہاتھ جب دستِ دعا تھے اپنے |
پاؤں زنجیر کے حلقوں سے کٹے جاتے تھے |
لفظ تقصیر تھے |
آواز پہ تعزیریں تھیں |
تم نے معصوم جسارت کی تھی |
اک تمنا کی عبادت کی تھی |
پا برہنہ تھے تمھارے |
یہی بوسیدہ قبا تھی تن پر |
اور یہی سرخ— لہو کے دھبے |
جنھیں تحریرِ گل و لالہ کہا تھا تم نے |
ہر نظارے پئے نظار گی جاں تم کو |
ہر گلی کوچۂ محبوب نظر آئی تھی |
رات کو زلف سے تعبیر کیا تھا تم نے |
تم بھلا کیوں رسن و دار تک آ پہنچے ہو |
تم نہ منصور نہ عیسیٰ ٹھہرے—!؟ |
(۱۹۷۱ء) |