آج دامن کشاں کوئی پیماں نہیں
زخمِ جاں سے بھی گھر میں چراغاں نہیں
شہرِ دل کے لیے کوئی فرماں نہیں
آج ہر مہرباں ہاتھ ہے خوں چکاں
اب کوئی دشنۂ بے اماں
آستینوں میں پنہاں نہیں
رشتۂ درد فرسودہ زنجیر تھی
آج زنجیر توڑی گئی
پیار کے گیت ہونٹوں پہ ہیں منجمد
آج احساس کی رسم دیرینہ چھوڑی گئی
آج حسن و صداقت کو کیا ہوگیا
آج ناز محبت کو کیا ہوگیا
عارضِ گل کا رنگِ حنا کیا ہوا
صر صرِ غم! غرورِ صبا کیا ہوا
میرے ریحان و سرو و سمن کیا ہوئے
وہ جمال و وقارِ چمن کیا ہوئے
آج کھیتوں میں نفرت کی فصلیں اُگیں
میرے اپنے درختوں کی شاخیں صلیبیں بنیں
میرے بچوں کو کیسی امانت ملی
خوں میں لتھڑا ہوا یہ سیہ پیرہن
میری نسلوں کو میری وراثت ملی
میری مٹی کی خوشبو کہاں کھو گئی
میری آنکھوں کے دیپک بجھے کس طرح
میرے آنسو لٹے ہیں فغاں کھو گئی
آج تاب ِ مدارات مژگاں نہیں!
(۱۹۷۱ء)
آج دامن کشاں کوئی پیماں نہیں
زخمِ جاں سے بھی گھر میں چراغاں نہیں
شہرِ دل کے لیے کوئی فرماں نہیں
آج ہر مہرباں ہاتھ ہے خوں چکاں
اب کوئی دشنۂ بے اماں
آستینوں میں پنہاں نہیں
رشتۂ درد فرسودہ زنجیر تھی
آج زنجیر توڑی گئی
پیار کے گیت ہونٹوں پہ ہیں منجمد
آج احساس کی رسم دیرینہ چھوڑی گئی
آج حسن و صداقت کو کیا ہوگیا
آج ناز محبت کو کیا ہوگیا
عارضِ گل کا رنگِ حنا کیا ہوا
صر صرِ غم! غرورِ صبا کیا ہوا
میرے ریحان و سرو و سمن کیا ہوئے
وہ جمال و وقارِ چمن کیا ہوئے
آج کھیتوں میں نفرت کی فصلیں اُگیں
میرے اپنے درختوں کی شاخیں صلیبیں بنیں
میرے بچوں کو کیسی امانت ملی
خوں میں لتھڑا ہوا یہ سیہ پیرہن
میری نسلوں کو میری وراثت ملی
میری مٹی کی خوشبو کہاں کھو گئی
میری آنکھوں کے دیپک بجھے کس طرح
میرے آنسو لٹے ہیں فغاں کھو گئی
آج تاب ِ مدارات مژگاں نہیں!
(۱۹۷۱ء)
کوئی پیماں نہیں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more