خود اپنی ذات سے ہیں ، شناسائیاں تو ہیں |
صحرا میں ہم سفر مری تنہائیاں تو ہیں |
پتھر بھی برگِ گل ہیں کہ اپنی گلی کے ہیں |
آخر بقدرِ ظرف پذیرائیاں تو ہیں |
گل پیرہن ہے آج بھی اندازِ نقشِ پا |
یعنی دلوں کی حوصلہ افزائیاں تو ہیں |
جھوٹی تسّلیوں کو ترستا رہا ہے جی |
کاغذ کے برگ و گل میں بھی رعنائیاں تو ہیں |
اب بھی یہ نام ، شکرِ خدا برگزیدہ ہے |
لوگو! نگر نگر ابھی رُسوائیاں تو ہیں |
اب کے بھی فصلِ گل کی لہو رنگ تھی فضا |
میں خود جہاں نہیں ، مری پرچھائیاں تو ہیں |
تم ڈھونڈنے چلی ہو خلوصِ نوا اداؔ |
شہر وں میں گونجتی ہوئی شہنائیاں تو ہیں |
(۱۹۷۳ء) |
خود اپنی ذات سے ہیں ، شناسائیاں تو ہیں |
صحرا میں ہم سفر مری تنہائیاں تو ہیں |
پتھر بھی برگِ گل ہیں کہ اپنی گلی کے ہیں |
آخر بقدرِ ظرف پذیرائیاں تو ہیں |
گل پیرہن ہے آج بھی اندازِ نقشِ پا |
یعنی دلوں کی حوصلہ افزائیاں تو ہیں |
جھوٹی تسّلیوں کو ترستا رہا ہے جی |
کاغذ کے برگ و گل میں بھی رعنائیاں تو ہیں |
اب بھی یہ نام ، شکرِ خدا برگزیدہ ہے |
لوگو! نگر نگر ابھی رُسوائیاں تو ہیں |
اب کے بھی فصلِ گل کی لہو رنگ تھی فضا |
میں خود جہاں نہیں ، مری پرچھائیاں تو ہیں |
تم ڈھونڈنے چلی ہو خلوصِ نوا اداؔ |
شہر وں میں گونجتی ہوئی شہنائیاں تو ہیں |
(۱۹۷۳ء) |