کہتے ہیں اب کے بھی فصلِ گل آئی تھی
نکہت و رنگ نے چھاؤنی چھائی تھی
بے کراں تھا ہر اک لمحۂ مختصر
کامراں تھا نگہ سے نگہ تک سفر
اب کے بھی لوحِ جاں پر ہوئی تھیں رقم
حسن و تقدیس کی جاوداں آیتیں
اب کے بھی عام تھی سلسبیل کرم
زندگی کے محبت کے سب نامہ بر
پے بہ پے آئے تھے صف بہ صف آئے تھے
وہ مزاجِ تمناّ کے رمز آشنا
ماہ و خورشیدانجم بکف آئے تھے
ایک میں تھی کہ محرومِ نظارہ تھی
میری مجبور آنکھوں کو یہ حکم تھا
تو جہاں بھی رہے ، جب یہ نظریں اُٹھیں
تیرا چہرہ ہو حدِ نگاہ وفا
نکہتوں کا صحیفہ نہیں پڑھ سکی
فرض تھی ناز برداریِ رنگ و بو
فصلِ گل مجھ سے مایوس واپس گئی!
(۱۹۷۳ء)
کہتے ہیں اب کے بھی فصلِ گل آئی تھی
نکہت و رنگ نے چھاؤنی چھائی تھی
بے کراں تھا ہر اک لمحۂ مختصر
کامراں تھا نگہ سے نگہ تک سفر
اب کے بھی لوحِ جاں پر ہوئی تھیں رقم
حسن و تقدیس کی جاوداں آیتیں
اب کے بھی عام تھی سلسبیل کرم
زندگی کے محبت کے سب نامہ بر
پے بہ پے آئے تھے صف بہ صف آئے تھے
وہ مزاجِ تمناّ کے رمز آشنا
ماہ و خورشیدانجم بکف آئے تھے
ایک میں تھی کہ محرومِ نظارہ تھی
میری مجبور آنکھوں کو یہ حکم تھا
تو جہاں بھی رہے ، جب یہ نظریں اُٹھیں
تیرا چہرہ ہو حدِ نگاہ وفا
نکہتوں کا صحیفہ نہیں پڑھ سکی
فرض تھی ناز برداریِ رنگ و بو
فصلِ گل مجھ سے مایوس واپس گئی!
(۱۹۷۳ء)
کہتے ہیں۔۔۔
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more