جی نہ چاہا اسے بھلانے کو
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو
اک ستارہ مژہ پہ روشن ہے
اک دیا رہ گیا بجھانے کو
ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو
ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں
گھر کی ویرانیاں جتانے کو
آنسوؤں کو ترس گئیں آنکھیں
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو
سانس کی بات ہو کہآس اداؔ
سب کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو
(۱۹۶۸ء)
جی نہ چاہا اسے بھلانے کو
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو
اک ستارہ مژہ پہ روشن ہے
اک دیا رہ گیا بجھانے کو
ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو
ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں
گھر کی ویرانیاں جتانے کو
آنسوؤں کو ترس گئیں آنکھیں
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو
سانس کی بات ہو کہآس اداؔ
سب کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو
(۱۹۶۸ء)
جی نہ چاہا اسے بھلانے کو
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more