ہم نے بھلا کس سے کہا!
کرتے رہے ہم عمر بھر
کس رہ گزر کی جستجو
آنکھوں سے کیوں اوجھل ہوا
منسوب جس کے نام تھی
ہر روشنی ، ہر آرزو
سفاک تھی موجِ بلا
مرگِ تمنا عام تھی
چپ چاپ ہم کس کے لیے
تھامے رہے جلتے دیے
دیکھو کہ پھر صیقل ہوئے
شہر وفا کے آئنے
آتی رُتوں کی آہٹیں
بیتے دنوں کے نقشِ پا
دیکھو کہ وہ آرامِ جاں
ہم پر ہوا پھر مہرباں
ہم نے بھلا کس سے کہا!
(۱۹۷۳ء)
ہم نے بھلا کس سے کہا!
کرتے رہے ہم عمر بھر
کس رہ گزر کی جستجو
آنکھوں سے کیوں اوجھل ہوا
منسوب جس کے نام تھی
ہر روشنی ، ہر آرزو
سفاک تھی موجِ بلا
مرگِ تمنا عام تھی
چپ چاپ ہم کس کے لیے
تھامے رہے جلتے دیے
دیکھو کہ پھر صیقل ہوئے
شہر وفا کے آئنے
آتی رُتوں کی آہٹیں
بیتے دنوں کے نقشِ پا
دیکھو کہ وہ آرامِ جاں
ہم پر ہوا پھر مہرباں
ہم نے بھلا کس سے کہا!
(۱۹۷۳ء)
ہم نے بھلا کس سے کہا!
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more