رفیقِ دشتِ تمنا! مسیحِ عرصۂ جاں
مرے حبیب ، یہ دل تیرے ناز پر قرباں
مرے لہو سے تری پور پور ہے زخمی
سلگ رہا تھا اِسی اِک دیے سے میرا بدن
خدا نکردہ مری آنچ تجھ تک آپہنچے
تو خود حریمِ محبت ، تو قبلہ گاہِ وفا
مجھے تو آتا ہے ہر رنگ زندگی کرنا
کبھی کو تو جو پشیماں ہوا تو کیا ہوگا
میں بے نشاں بھی سہی ، بے زباں بھی ہوں لیکن
میں حرفِ شوق بنام بیاض سادہ ہوں
مرے حبیب ، مرے کج کلاہ ، دیکھ تو لے
میں سر بکف تری چوکھٹ پہ ایستادہ ہوں
تری نگاہ نگاہوں سے کیوں نہیں ملتی
یہ خون فرض تھا مجھ پر ، اداؔ کیا میں نے
یہ خون قرض تھا مجھ پر ، چکا دیا میں نے
(۱۹۷۰ء)
رفیقِ دشتِ تمنا! مسیحِ عرصۂ جاں
مرے حبیب ، یہ دل تیرے ناز پر قرباں
مرے لہو سے تری پور پور ہے زخمی
سلگ رہا تھا اِسی اِک دیے سے میرا بدن
خدا نکردہ مری آنچ تجھ تک آپہنچے
تو خود حریمِ محبت ، تو قبلہ گاہِ وفا
مجھے تو آتا ہے ہر رنگ زندگی کرنا
کبھی کو تو جو پشیماں ہوا تو کیا ہوگا
میں بے نشاں بھی سہی ، بے زباں بھی ہوں لیکن
میں حرفِ شوق بنام بیاض سادہ ہوں
مرے حبیب ، مرے کج کلاہ ، دیکھ تو لے
میں سر بکف تری چوکھٹ پہ ایستادہ ہوں
تری نگاہ نگاہوں سے کیوں نہیں ملتی
یہ خون فرض تھا مجھ پر ، اداؔ کیا میں نے
یہ خون قرض تھا مجھ پر ، چکا دیا میں نے
(۱۹۷۰ء)
گواہی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more