دلوں کی راکھ ، غبار جبیں کی بات کرو |
جہاں لٹے ہیں ، اُسی سرزمیں کی بات کرو |
ہمارے بعد وفاؤں کے دل پہ کیا گزری |
محبتوں کے دمِ آخریں کی بات کرو |
شفق سے ڈوبتی کرنوں نے کیا کہا ہوگا |
جراحتِ نگہ ِواپسیں کی بات کرو |
رفیقِ دشتِ تمنا ابھی خموش نہ ہو |
جنوں کا ذکر جنوں آفریں کی بات کرو |
کوئی سبیل ، کوئی چارہ جی ٹھہرنے کو |
جنھوں نے توڑ دیا دل اُنھیں کی بات کرو |
مرے لہو سے کہیں تو کھلے گل و لالہ |
بہ یاد ہم نفساں آستیں کی بات کرو |
صنم کدوں نے نئے بت سجا لیے ہوں گے |
تم آج اپنی متاعِ جبیں کی بات کرو |
مژہ کو قرضِ تمناّ ابھی چکانا ہے |
کھنڈر کے سائے میں شہر ِحسیں کی بات کر |
صلیب ِشاخ سے سائے کی آرزو تھی اداؔ |
کمالِ سادگیِ رہ نشیں کی بات کرو |
(۱۹۷۲ء) |
دلوں کی راکھ ، غبار جبیں کی بات کرو |
جہاں لٹے ہیں ، اُسی سرزمیں کی بات کرو |
ہمارے بعد وفاؤں کے دل پہ کیا گزری |
محبتوں کے دمِ آخریں کی بات کرو |
شفق سے ڈوبتی کرنوں نے کیا کہا ہوگا |
جراحتِ نگہ ِواپسیں کی بات کرو |
رفیقِ دشتِ تمنا ابھی خموش نہ ہو |
جنوں کا ذکر جنوں آفریں کی بات کرو |
کوئی سبیل ، کوئی چارہ جی ٹھہرنے کو |
جنھوں نے توڑ دیا دل اُنھیں کی بات کرو |
مرے لہو سے کہیں تو کھلے گل و لالہ |
بہ یاد ہم نفساں آستیں کی بات کرو |
صنم کدوں نے نئے بت سجا لیے ہوں گے |
تم آج اپنی متاعِ جبیں کی بات کرو |
مژہ کو قرضِ تمناّ ابھی چکانا ہے |
کھنڈر کے سائے میں شہر ِحسیں کی بات کر |
صلیب ِشاخ سے سائے کی آرزو تھی اداؔ |
کمالِ سادگیِ رہ نشیں کی بات کرو |
(۱۹۷۲ء) |