دلوں کی عرضِ تمناّ کو اور کیا کہنا |
کبھی کرن ، کبھی شبنم ، کبھی دعا کہنا |
ہزار دشت اس اک مختصر سی راہ میں ہیں |
شمیمِ جاں کو نہ بھولے سے مرحبا کہنا |
چلا گیا ہے جو آ کر ، ہوا کا جھونکا تھا |
کبھی سموم اسے کہنا ، کبھی صبا کہنا |
چلے جہاں سے مسافر ، وہ گھر کا آنگن تھا |
جہاں پہ تھک کے گریں ، اُس کو نقشِ پا کہنا |
جو زندگی بھی نہیں شرحِ زندگی بھی نہیں |
اُسی کو آج بھی کہنا جو آسرا کہنا |
نہ جانے کتنے چراغوں کا خوں ہوا ہوگا |
نہیں ہے سہل کسی دل کو بے وفا کہنا |
یہ میرے عہد کی ، یا خود مری کہانی تھی |
جو دسترس سے ہو باہر اُسے خدا کہنا |
ہمارے ناز طلب کا بھی ذکر تو ہوگا |
کھنڈر کی اوٹ میں بجھتا ہوا دیا کہنا |
بھنور سے پوچھو اداؔ اب کے ساحلوں کا پتا |
نہ راس آیا سفینے کو ناخدا کہنا |
(۱۹۷۳ء) |
دلوں کی عرضِ تمناّ کو اور کیا کہنا |
کبھی کرن ، کبھی شبنم ، کبھی دعا کہنا |
ہزار دشت اس اک مختصر سی راہ میں ہیں |
شمیمِ جاں کو نہ بھولے سے مرحبا کہنا |
چلا گیا ہے جو آ کر ، ہوا کا جھونکا تھا |
کبھی سموم اسے کہنا ، کبھی صبا کہنا |
چلے جہاں سے مسافر ، وہ گھر کا آنگن تھا |
جہاں پہ تھک کے گریں ، اُس کو نقشِ پا کہنا |
جو زندگی بھی نہیں شرحِ زندگی بھی نہیں |
اُسی کو آج بھی کہنا جو آسرا کہنا |
نہ جانے کتنے چراغوں کا خوں ہوا ہوگا |
نہیں ہے سہل کسی دل کو بے وفا کہنا |
یہ میرے عہد کی ، یا خود مری کہانی تھی |
جو دسترس سے ہو باہر اُسے خدا کہنا |
ہمارے ناز طلب کا بھی ذکر تو ہوگا |
کھنڈر کی اوٹ میں بجھتا ہوا دیا کہنا |
بھنور سے پوچھو اداؔ اب کے ساحلوں کا پتا |
نہ راس آیا سفینے کو ناخدا کہنا |
(۱۹۷۳ء) |