دید کا لمحہ مرے پاس اکیلا آیا |
تو جہاں دارِ نظارہ تھا مگر ساتھ نہ تھا |
میں وہ باہوش کہ دیوار بنی جاتی تھی |
خامشی عرصۂ پیکار بنی جاتی تھی |
جانے اس وقت تجھے کس کی تمنا ہوگی |
تونے اِس آن نہ جانے کسے دیکھا ہوگا |
کون سا رنگ ترے ناز کو جچتا ہوگا |
ناز بردار تھی اُس وقت کہ مسحور تھی میں |
تو مرے سامنے آیا تو بہت دُور تھی میں |
عکسِ خورشیدِ جگر تاب تھا مہ پارا تھا |
میری پلکوں پہ دہکتا ہوا انگارا تھا |
یہ خرابہ ترے ہوتے ہوئے آباد نہ تھا |
دید کا لمحہ مجھے یاد تھا ، تو یاد نہ تھا |
اور پھر دل نے وہ بھولی ہوئی آواز سنی |
بیعتِ درد کی کس ناز سے تجدید ہوئی |
وہ فسوں ساز ، جنوں ریز ، سکوں بار صدا |
وہ جوہر جذبۂ نا مصلحت اندیش کے ساتھ |
وقت کے دشتِ بلا خیز میں کھو جاتی ہے |
اور دانائی کا بوسیدہ لبادہ اوڑھے |
راہ رو سنگِ نشاں ، ڈھونڈتا رہ جاتا ہے |
وہ جو کھوئی تھی مری روح کے سناٹوں میں |
آپ ہی آپ مرے دل میں اُترنے آئی |
جانے یہ میں نے کہا ، تو نے کہا ، کس نے کہا |
شعلۂ رُخ کو کبھی آئنہ پردہ نہ ہوا |
میں محبت ہوں ، محبت میں کہاں اندیشے |
تو صداقت ہے ، صداقت کے ہزاروں چہرے |
(۱۹۶۹ء) |
دید کا لمحہ مرے پاس اکیلا آیا |
تو جہاں دارِ نظارہ تھا مگر ساتھ نہ تھا |
میں وہ باہوش کہ دیوار بنی جاتی تھی |
خامشی عرصۂ پیکار بنی جاتی تھی |
جانے اس وقت تجھے کس کی تمنا ہوگی |
تونے اِس آن نہ جانے کسے دیکھا ہوگا |
کون سا رنگ ترے ناز کو جچتا ہوگا |
ناز بردار تھی اُس وقت کہ مسحور تھی میں |
تو مرے سامنے آیا تو بہت دُور تھی میں |
عکسِ خورشیدِ جگر تاب تھا مہ پارا تھا |
میری پلکوں پہ دہکتا ہوا انگارا تھا |
یہ خرابہ ترے ہوتے ہوئے آباد نہ تھا |
دید کا لمحہ مجھے یاد تھا ، تو یاد نہ تھا |
اور پھر دل نے وہ بھولی ہوئی آواز سنی |
بیعتِ درد کی کس ناز سے تجدید ہوئی |
وہ فسوں ساز ، جنوں ریز ، سکوں بار صدا |
وہ جوہر جذبۂ نا مصلحت اندیش کے ساتھ |
وقت کے دشتِ بلا خیز میں کھو جاتی ہے |
اور دانائی کا بوسیدہ لبادہ اوڑھے |
راہ رو سنگِ نشاں ، ڈھونڈتا رہ جاتا ہے |
وہ جو کھوئی تھی مری روح کے سناٹوں میں |
آپ ہی آپ مرے دل میں اُترنے آئی |
جانے یہ میں نے کہا ، تو نے کہا ، کس نے کہا |
شعلۂ رُخ کو کبھی آئنہ پردہ نہ ہوا |
میں محبت ہوں ، محبت میں کہاں اندیشے |
تو صداقت ہے ، صداقت کے ہزاروں چہرے |
(۱۹۶۹ء) |