وہ جو چپ چاپ بھری بزم میں اُٹھ کر چل دیں |
یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں |
بے نیازی تھی کہ خودداریِ فن تھی لوگو! |
شب کی مہماں کوئی گم گشتہ کرن تھی لوگو! |
زہر کا جام بھلا راس کسے آیا ہے |
درد کا زہر تھا رگ رگ میں لہو کے بدلے |
ناتواں دل کے مگر پھر بھی وہی تیور تھے |
اور وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی حیراں آنکھیں |
نہ ہراساں ، نہ پریشاں ، نہ پشیماں آنکھیں |
وہی آسودہ و مانوس تبسم لب پر |
زہر کا ناز اُٹھایا تو کئی غم بہلے |
اتنی تنہائی کہ تنہائی بھی لَو دینے لگے |
خامشی ایسی کہ ہنگامۂ محشر جیسے |
یا کے دھندلے دریچوں میں کہیں صف آرا |
عہد ِ ماضی کے حسیں خواب ، تمنا کے سراغ |
دُور اُفق پا ر فروزاں کسی فردا کے چراغ |
درد کی شب کو اُجالوں کے سندیسے بٹتے |
چند روز اور اُمیدوں کے سہارے کٹتے |
زندگی کو کئی راہوں سے گزرتے دیکھا |
فکرِ انساں کی صداقت کو نہ مرتے دیکھا |
موت پہلے بھی تو اُن جیسوں کا مقسوم نہ تھی |
جانے کس دیس پہنچنے کی ہوئی تھی جلدی |
جانے کس بزم سے آیا تھا بلاوا اب کے! |
(۱۹۷۳ء) |
وہ جو چپ چاپ بھری بزم میں اُٹھ کر چل دیں |
یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں |
بے نیازی تھی کہ خودداریِ فن تھی لوگو! |
شب کی مہماں کوئی گم گشتہ کرن تھی لوگو! |
زہر کا جام بھلا راس کسے آیا ہے |
درد کا زہر تھا رگ رگ میں لہو کے بدلے |
ناتواں دل کے مگر پھر بھی وہی تیور تھے |
اور وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی حیراں آنکھیں |
نہ ہراساں ، نہ پریشاں ، نہ پشیماں آنکھیں |
وہی آسودہ و مانوس تبسم لب پر |
زہر کا ناز اُٹھایا تو کئی غم بہلے |
اتنی تنہائی کہ تنہائی بھی لَو دینے لگے |
خامشی ایسی کہ ہنگامۂ محشر جیسے |
یا کے دھندلے دریچوں میں کہیں صف آرا |
عہد ِ ماضی کے حسیں خواب ، تمنا کے سراغ |
دُور اُفق پا ر فروزاں کسی فردا کے چراغ |
درد کی شب کو اُجالوں کے سندیسے بٹتے |
چند روز اور اُمیدوں کے سہارے کٹتے |
زندگی کو کئی راہوں سے گزرتے دیکھا |
فکرِ انساں کی صداقت کو نہ مرتے دیکھا |
موت پہلے بھی تو اُن جیسوں کا مقسوم نہ تھی |
جانے کس دیس پہنچنے کی ہوئی تھی جلدی |
جانے کس بزم سے آیا تھا بلاوا اب کے! |
(۱۹۷۳ء) |