(ممتاز شیریں کی یاد میں)
وہ جو چپ چاپ بھری بزم میں اُٹھ کر چل دیں
یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں
بے نیازی تھی کہ خودداریِ فن تھی لوگو!
شب کی مہماں کوئی گم گشتہ کرن تھی لوگو!
زہر کا جام بھلا راس کسے آیا ہے
درد کا زہر تھا رگ رگ میں لہو کے بدلے
ناتواں دل کے مگر پھر بھی وہی تیور تھے
اور وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی حیراں آنکھیں
نہ ہراساں ، نہ پریشاں ، نہ پشیماں آنکھیں
وہی آسودہ و مانوس تبسم لب پر
زہر کا ناز اُٹھایا تو کئی غم بہلے
اتنی تنہائی کہ تنہائی بھی لَو دینے لگے
خامشی ایسی کہ ہنگامۂ محشر جیسے
یا کے دھندلے دریچوں میں کہیں صف آرا
عہد ِ ماضی کے حسیں خواب ، تمنا کے سراغ
دُور اُفق پا ر فروزاں کسی فردا کے چراغ
درد کی شب کو اُجالوں کے سندیسے بٹتے
چند روز اور اُمیدوں کے سہارے کٹتے
زندگی کو کئی راہوں سے گزرتے دیکھا
فکرِ انساں کی صداقت کو نہ مرتے دیکھا
موت پہلے بھی تو اُن جیسوں کا مقسوم نہ تھی
جانے کس دیس پہنچنے کی ہوئی تھی جلدی
جانے کس بزم سے آیا تھا بلاوا اب کے!
(۱۹۷۳ء)
(ممتاز شیریں کی یاد میں)
وہ جو چپ چاپ بھری بزم میں اُٹھ کر چل دیں
یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں
بے نیازی تھی کہ خودداریِ فن تھی لوگو!
شب کی مہماں کوئی گم گشتہ کرن تھی لوگو!
زہر کا جام بھلا راس کسے آیا ہے
درد کا زہر تھا رگ رگ میں لہو کے بدلے
ناتواں دل کے مگر پھر بھی وہی تیور تھے
اور وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی حیراں آنکھیں
نہ ہراساں ، نہ پریشاں ، نہ پشیماں آنکھیں
وہی آسودہ و مانوس تبسم لب پر
زہر کا ناز اُٹھایا تو کئی غم بہلے
اتنی تنہائی کہ تنہائی بھی لَو دینے لگے
خامشی ایسی کہ ہنگامۂ محشر جیسے
یا کے دھندلے دریچوں میں کہیں صف آرا
عہد ِ ماضی کے حسیں خواب ، تمنا کے سراغ
دُور اُفق پا ر فروزاں کسی فردا کے چراغ
درد کی شب کو اُجالوں کے سندیسے بٹتے
چند روز اور اُمیدوں کے سہارے کٹتے
زندگی کو کئی راہوں سے گزرتے دیکھا
فکرِ انساں کی صداقت کو نہ مرتے دیکھا
موت پہلے بھی تو اُن جیسوں کا مقسوم نہ تھی
جانے کس دیس پہنچنے کی ہوئی تھی جلدی
جانے کس بزم سے آیا تھا بلاوا اب کے!
(۱۹۷۳ء)
بلاوا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more