اندھیرا اتنا بڑھا ، کہکشاں اُتر آئی
بہل گئی مرے گھر کی اُداس تنہائی
دُکھوں کے زردو سیہ آنسوؤں میں بھیگی رُت
ہمارے پاس چلی آئی ، جب بھی گھبرائی
یہ برگِ گل سی تمنا ، یہ ریگ زارسی دُھوپ
یہ خوش خرام کھلے سر کہاں چلی آئی
وہ رہ گزر تھی وفا کی کہ زندگی کا سفر
درخت کا کہیں سایہ نہ دُھوپ کجلائی
نہ کوئی زخم ہی نکھرا نہ درد ہی چمکا
سنا ہے اب کے برس بھی چلی تھی پروائی
ہمیں سے ناز اُٹھائے گئے اندھیروں کے
ہمیں نے زلفِ شبِ بے قرار سلجھائی
ہم اپنے گھر کی گلی سے قدم بڑھا نہ سکے
ہم اور بامِ حرم سے اداؔ شناسائی!
اندھیرا اتنا بڑھا ، کہکشاں اُتر آئی
بہل گئی مرے گھر کی اُداس تنہائی
دُکھوں کے زردو سیہ آنسوؤں میں بھیگی رُت
ہمارے پاس چلی آئی ، جب بھی گھبرائی
یہ برگِ گل سی تمنا ، یہ ریگ زارسی دُھوپ
یہ خوش خرام کھلے سر کہاں چلی آئی
وہ رہ گزر تھی وفا کی کہ زندگی کا سفر
درخت کا کہیں سایہ نہ دُھوپ کجلائی
نہ کوئی زخم ہی نکھرا نہ درد ہی چمکا
سنا ہے اب کے برس بھی چلی تھی پروائی
ہمیں سے ناز اُٹھائے گئے اندھیروں کے
ہمیں نے زلفِ شبِ بے قرار سلجھائی
ہم اپنے گھر کی گلی سے قدم بڑھا نہ سکے
ہم اور بامِ حرم سے اداؔ شناسائی!
اندھیرا اتنا بڑھا، کہکشاں اُتر آئی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more