اے صبحِ وطن! تیرے اُجالوں کی تمنا      
کل بھی مرے رستے ہوئے زخموں کی حنا تھی      
کل بھی مری رہبر تھی ترے نام کی خوشبو      
اور آج بھی دی ہے تری حرمت پہ گواہی      
      اے صحنِ چمن! تیری بہاروں کی لگن میں
      کس دشتِ بلاخیز سے گزرے ترے رہرو
      تشریحِ جنوں کرتے رہے پاؤں کے چھالے
      اوراقِ گل و لالہ کی مدھم نہ پڑی لو
اے صبحِ تمنا تری راتوں کے مسافر       
خوننابۂ مژگاں کے سہارے بھی چلے ہیں      
کوندی ہیں کبھی درد کی کرنیں سرِ مقتل      
پروانوں کی صورت کبھی چپ چاپ جلے ہیں      
      پہنچے ترے پندار کی چاہت میں کہاں تک
      رُسوا بھی سرِ کوچہ و بازار ہوئے ہیں
      دُنیا نے سنے حلقۂ زنجیر کے نوحے
      تنہائیِ زنداں کے خریدار ہوئے ہیں
دیکھے مرے گھائل ، مرے حیران غزالاں      
صد چاک ہیں دل آج بھی ویران نہیں ہیں      
آزردہ و درماندہ و پابندِ سلاسل      
پابندِ سلاسل ہیں، پشیمان نہیں ہیں      
      اے شہرِ عزیزاں! تری ناموس کی خاطر
      ہم جاں سے بھی گزرے تو کوئی بات نہیں ہے
      اُبھرے گا اندھیروں سے ترا نیرِ تاباں
      اس رات کے بعد اور کوئی رات نہیں ہے
اے منزلِ ارماں ترے سورج کی ضیا سے      
دمکیں ترے قریے، ترے کوچے تری گلیاں      
روشن تری عظمت کے سراغ اور زیادہ      
اکرام بداماں ترے لمحے تری صدیاں      
(۱۹۷۳ء)
اے صبحِ وطن! تیرے اُجالوں کی تمنا    
کل بھی مرے رستے ہوئے زخموں کی حنا تھی    
کل بھی مری رہبر تھی ترے نام کی خوشبو    
اور آج بھی دی ہے تری حرمت پہ گواہی    
    اے صحنِ چمن! تیری بہاروں کی لگن میں
    کس دشتِ بلاخیز سے گزرے ترے رہرو
    تشریحِ جنوں کرتے رہے پاؤں کے چھالے
    اوراقِ گل و لالہ کی مدھم نہ پڑی لو
اے صبحِ تمنا تری راتوں کے مسافر     
خوننابۂ مژگاں کے سہارے بھی چلے ہیں    
کوندی ہیں کبھی درد کی کرنیں سرِ مقتل    
پروانوں کی صورت کبھی چپ چاپ جلے ہیں    
    پہنچے ترے پندار کی چاہت میں کہاں تک
    رُسوا بھی سرِ کوچہ و بازار ہوئے ہیں
    دُنیا نے سنے حلقۂ زنجیر کے نوحے
    تنہائیِ زنداں کے خریدار ہوئے ہیں
دیکھے مرے گھائل ، مرے حیران غزالاں    
صد چاک ہیں دل آج بھی ویران نہیں ہیں    
آزردہ و درماندہ و پابندِ سلاسل    
پابندِ سلاسل ہیں، پشیمان نہیں ہیں    
    اے شہرِ عزیزاں! تری ناموس کی خاطر
    ہم جاں سے بھی گزرے تو کوئی بات نہیں ہے
    اُبھرے گا اندھیروں سے ترا نیرِ تاباں
    اس رات کے بعد اور کوئی رات نہیں ہے
اے منزلِ ارماں ترے سورج کی ضیا سے    
دمکیں ترے قریے، ترے کوچے تری گلیاں    
روشن تری عظمت کے سراغ اور زیادہ    
اکرام بداماں ترے لمحے تری صدیاں    
(۱۹۷۳ء)
اے شہرِ عزیزاں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more