ابھی تو ردِّ صباحِ افسوں نہیں ہوا ہے |
ابھی تو شب خوں نہیں ہوا ہے |
ابھی گُلوں کی برہنگی کو |
رِدائے تمکیں نہیں ملی ہے |
حصارِزنداں میں نکہتِ گل |
ابھی مقید نہ ہو سکی ہے |
ابھی نگہ بے زباں نہیں ہے |
ابھی وفا بدگماں نہیں ہے |
ابھی ترے موقلم کی جنبش |
دلوں کو مرہم بنی ہوئی ہے |
خودابنِ مریم بنی ہوئی ہے |
ابھی مغنی ّ کے ہر نفس سے |
چراغ جلتے ہیں انجمن میں |
ہزار جلووں کی دھڑکنیں ہیں |
ہمارے لفظوں کے پیرہن میں |
یہ خود کلام و عجیب لمحے |
جوسانس لیتے ہیں پھول بن میں |
جنوں کی بے صبر چاندنی پر |
خردکے سائے نہیں پڑے ہیں |
اچھوتے خوابوں کی اوڑھنی پر |
لہو کے چھینٹے نہیں پڑے ہیں |
ابھی تو ارمان جاگتاہے |
ابھی ہے آئینہ مصحف ِ رُخ |
ہر اک پیمان جاگتا ہے |
متاعِ غم ہے ابھی سلامت |
کریم و غفار ہے محبت |
بڑی مقدس ہے یہ امانت |
ہمارے مہماں اِس ایک شب تو نجوم اور ماہتاب ہوں گے |
لہو میں رقصاں ہیں جوشرارے |
وہ رشکِ صد آفتاب ہوں گے |
اس ایک دن تودلوں کی راہیں دلوں تلک استوار ہوں گی |
یہ چند لمحے، یہ چند گھڑیاں |
حیات سے مستعار ہوں گی |
ہماری اپنی شمار ہوں گی |
(۱۹۷۰ء) |
ابھی تو ردِّ صباحِ افسوں نہیں ہوا ہے |
ابھی تو شب خوں نہیں ہوا ہے |
ابھی گُلوں کی برہنگی کو |
رِدائے تمکیں نہیں ملی ہے |
حصارِزنداں میں نکہتِ گل |
ابھی مقید نہ ہو سکی ہے |
ابھی نگہ بے زباں نہیں ہے |
ابھی وفا بدگماں نہیں ہے |
ابھی ترے موقلم کی جنبش |
دلوں کو مرہم بنی ہوئی ہے |
خودابنِ مریم بنی ہوئی ہے |
ابھی مغنی ّ کے ہر نفس سے |
چراغ جلتے ہیں انجمن میں |
ہزار جلووں کی دھڑکنیں ہیں |
ہمارے لفظوں کے پیرہن میں |
یہ خود کلام و عجیب لمحے |
جوسانس لیتے ہیں پھول بن میں |
جنوں کی بے صبر چاندنی پر |
خردکے سائے نہیں پڑے ہیں |
اچھوتے خوابوں کی اوڑھنی پر |
لہو کے چھینٹے نہیں پڑے ہیں |
ابھی تو ارمان جاگتاہے |
ابھی ہے آئینہ مصحف ِ رُخ |
ہر اک پیمان جاگتا ہے |
متاعِ غم ہے ابھی سلامت |
کریم و غفار ہے محبت |
بڑی مقدس ہے یہ امانت |
ہمارے مہماں اِس ایک شب تو نجوم اور ماہتاب ہوں گے |
لہو میں رقصاں ہیں جوشرارے |
وہ رشکِ صد آفتاب ہوں گے |
اس ایک دن تودلوں کی راہیں دلوں تلک استوار ہوں گی |
یہ چند لمحے، یہ چند گھڑیاں |
حیات سے مستعار ہوں گی |
ہماری اپنی شمار ہوں گی |
(۱۹۷۰ء) |