آرزو صبا جیسی پیرہن گلوں سا تھا
زندگی امانت تھی ، درد خود مسیحا تھا
ہم اگر نہ آجاتے ، ساکھ ختم ہو جاتی
آئنہ جہاں بھی تھا ، ریزہ ریزہ بکھرا تھا
دل کہاں دھڑکتا ہے پتھروں کے سینے میں
مڑ کے دیکھنے والو ، کس کی سمت دیکھا تھا
تم بھی توڑ جاؤ گے ناتواں سہاروں کو
ہم بھی بھول جائیں گے ، دل نے کب یہ سوچا تھا
آندھیوں میں بکھرا ہے اب ورق ورق جس کا
حرف حرف اس دل پر وہ صحیفہ اُترا تھا
بس کہیں فصیلوں کے کچھ نشان باقی ہیں
شہر کس طرح اُجڑا ، آگ تھی کہ دریا تھا
جادۂ تمنا سے دار کی بلندی تک
جانے والے جا پہنچے ، فاصلہ ہی کتنا تھا
ہم نے سونپ دی جس کو کائناتِ جاں اپنی
وہ خدا نہ تھا لیکن کس قدر اکیلا تھا
(۱۹۷۱ء)
آرزو صبا جیسی پیرہن گلوں سا تھا
زندگی امانت تھی ، درد خود مسیحا تھا
ہم اگر نہ آجاتے ، ساکھ ختم ہو جاتی
آئنہ جہاں بھی تھا ، ریزہ ریزہ بکھرا تھا
دل کہاں دھڑکتا ہے پتھروں کے سینے میں
مڑ کے دیکھنے والو ، کس کی سمت دیکھا تھا
تم بھی توڑ جاؤ گے ناتواں سہاروں کو
ہم بھی بھول جائیں گے ، دل نے کب یہ سوچا تھا
آندھیوں میں بکھرا ہے اب ورق ورق جس کا
حرف حرف اس دل پر وہ صحیفہ اُترا تھا
بس کہیں فصیلوں کے کچھ نشان باقی ہیں
شہر کس طرح اُجڑا ، آگ تھی کہ دریا تھا
جادۂ تمنا سے دار کی بلندی تک
جانے والے جا پہنچے ، فاصلہ ہی کتنا تھا
ہم نے سونپ دی جس کو کائناتِ جاں اپنی
وہ خدا نہ تھا لیکن کس قدر اکیلا تھا
(۱۹۷۱ء)
آرزو صبا جیسی پیرہن گلوں سا تھا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more