یہ دشتِ شب یہ آنسوؤں کے ماہتاب لے چلوں |
جو قرض میری جاں پہ تھے ، وہ سب حساب لے چلوں |
وہ اس قدر قریب تھا ، تو اتنی دُور کیوں ملا |
جو پوچھ لے تو کیا کہوں ، کوئی جواب لے چلوں |
تمام روشنی — مگر ہیں اجنبی یہ راستے |
میں اس کی بارگاہ تک بس اپنے خواب لے چلوں |
جو زخم دل پہ آئے ہیں وہ اس سے اب چھپا نہ لوں |
میں خار خار انگلیوں میں کچھ گلاب لے چلوں |
دُھواں دُھواں دیار میں چراغ سی جلی ہوں میں |
جو میرا بس چلے تو ساتھ یہ عذاب لے چلوں |
یہ بے بسی ، یہ سر کشی ، لگاؤ بھی ، کھنچاؤ بھی |
سراب کی طرح ملے ، کہاں سراب لے چلوں |
وہ مہرباں وہ رازداں اداؔ اُسے بتاؤں کیا |
میں جس پہ کچھ نہ لکھ سکی وہی کتاب لے چلوں |
یہ دشتِ شب یہ آنسوؤں کے ماہتاب لے چلوں |
جو قرض میری جاں پہ تھے ، وہ سب حساب لے چلوں |
وہ اس قدر قریب تھا ، تو اتنی دُور کیوں ملا |
جو پوچھ لے تو کیا کہوں ، کوئی جواب لے چلوں |
تمام روشنی — مگر ہیں اجنبی یہ راستے |
میں اس کی بارگاہ تک بس اپنے خواب لے چلوں |
جو زخم دل پہ آئے ہیں وہ اس سے اب چھپا نہ لوں |
میں خار خار انگلیوں میں کچھ گلاب لے چلوں |
دُھواں دُھواں دیار میں چراغ سی جلی ہوں میں |
جو میرا بس چلے تو ساتھ یہ عذاب لے چلوں |
یہ بے بسی ، یہ سر کشی ، لگاؤ بھی ، کھنچاؤ بھی |
سراب کی طرح ملے ، کہاں سراب لے چلوں |
وہ مہرباں وہ رازداں اداؔ اُسے بتاؤں کیا |
میں جس پہ کچھ نہ لکھ سکی وہی کتاب لے چلوں |