ہر گام سنبھل سنبھل رہی تھی |
یادوں کے بھنور میں چل رہی تھی |
سانچے میں خبر کے ڈھل رہی تھی |
اک خواب کی لَو سے جل رہی تھی |
شبنم سی لگی جو دیکھنے میں |
پتھر کی طرح پگھل رہی تھی |
رُوداد سفر کی پوچھتے ہو |
میں خواب میں جیسے چل رہی تھی |
کیفیتِ انتظارِ پیہم |
ہے آج وہی جو کل رہی تھی |
تھی حرفِ دعا سی یاد اُس کی |
زنجیرِ فراق گل رہی تھی |
کلیوں کو نشانِ رہ دکھا کر |
مہکی ہوئی رات ڈھل رہی تھی |
لوگوں کو پسند لغزشِ پا |
ایسے میں اداؔ سنبھل رہی تھی |
ہر گام سنبھل سنبھل رہی تھی |
یادوں کے بھنور میں چل رہی تھی |
سانچے میں خبر کے ڈھل رہی تھی |
اک خواب کی لَو سے جل رہی تھی |
شبنم سی لگی جو دیکھنے میں |
پتھر کی طرح پگھل رہی تھی |
رُوداد سفر کی پوچھتے ہو |
میں خواب میں جیسے چل رہی تھی |
کیفیتِ انتظارِ پیہم |
ہے آج وہی جو کل رہی تھی |
تھی حرفِ دعا سی یاد اُس کی |
زنجیرِ فراق گل رہی تھی |
کلیوں کو نشانِ رہ دکھا کر |
مہکی ہوئی رات ڈھل رہی تھی |
لوگوں کو پسند لغزشِ پا |
ایسے میں اداؔ سنبھل رہی تھی |