حیران ہوں ، کیوں دیر پشیماں سا لگے ہے |
سایہ جو مرے قد سے گریزاں سا لگے ہے |
اک وحشتِ جاں ہے کبھی صحرا کبھی زنداں |
اک عالم ِ دل ہے کہ بہاراں سا لگے ہے |
پندار نے ہر بار نیا دیپ جلایا |
جو چوٹ بھی کھائی ہے وہ احساں سا لگے ہے |
کچھ سوچ کے کہنا کہ ہمیں حرفِ تسلی |
تازہ ہو اگر زخم تو پیکاں سا لگے ہے |
کیا آس تھی دل کو کہا بھی تک نہیں ٹوٹی |
جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے |
آنچل کا جو تھا رنگ وہ پلکوں پہ رچا ہے |
اب کوئی بھی موسم ہو گل افشاں سا لگے ہے |
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا |
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے |
سونپی گئی ہر دولتِ بیدار اُسی کو |
یہ دل ہمیں آج بھی ناداں سا لگے ہے |
تجھ کو بھی اداؔ جرأتِ گفتار ملی تھی |
تو بھی مجھے اک حرفِ پریشاں سا لگے ہے |
حیران ہوں ، کیوں دیر پشیماں سا لگے ہے |
سایہ جو مرے قد سے گریزاں سا لگے ہے |
اک وحشتِ جاں ہے کبھی صحرا کبھی زنداں |
اک عالم ِ دل ہے کہ بہاراں سا لگے ہے |
پندار نے ہر بار نیا دیپ جلایا |
جو چوٹ بھی کھائی ہے وہ احساں سا لگے ہے |
کچھ سوچ کے کہنا کہ ہمیں حرفِ تسلی |
تازہ ہو اگر زخم تو پیکاں سا لگے ہے |
کیا آس تھی دل کو کہا بھی تک نہیں ٹوٹی |
جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے |
آنچل کا جو تھا رنگ وہ پلکوں پہ رچا ہے |
اب کوئی بھی موسم ہو گل افشاں سا لگے ہے |
خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا |
پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے |
سونپی گئی ہر دولتِ بیدار اُسی کو |
یہ دل ہمیں آج بھی ناداں سا لگے ہے |
تجھ کو بھی اداؔ جرأتِ گفتار ملی تھی |
تو بھی مجھے اک حرفِ پریشاں سا لگے ہے |