اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا
کسی منڈیر پہ جب تک چراغ جلتا تھا
وہ کتنی دُور رہا ، فیصلہ بھی اُس کا تھا
مجھے تو قرب کے احساس نے سنبھالا تھا
یہی غبارِ شب و روز کا کمال بھی ہے
جو آنکھ دیکھ نہ پائی وہ دل نے دیکھ تھا
سفر تمام ہوا ، اور حیرتیں نہ گئیں
جو قربتیں تھیں وہاں فاصلہ بلا کا تھا
نہ جانے لوگ کہاں تھے ، زمانہ تھا کہ نہیں
زمیں پہ میں تھی ، فلک پر بس اِک ستارا تھا
یہی خطا کہ پجارن تھی اور نہ دیوی تھی
بڑی خطا تھی کہ خود کو بھی میں نے چاہا تھا
جو اِذن ہو تو میں کچھ دیر اپنے پاس رہوں
کہا نہیں تھا یہ ، بس یوں ہی دل نے سوچا تھا
نہ آستاں نہ کوئی بام و در ہی جی کو لگے
چلن سدا سے یہی سر پھری ہوا کا تھا
بہت حسین ، بڑی دل نشیں حقیقت ہے
جو تشنہ لب تھا وہی اعتبارِ دریا تھا
پھر اس کے بعد اداؔ کوئی شب نہیں آئی
بس ایک نام بیاضِ سحر میں لکھا تھا
اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا
کسی منڈیر پہ جب تک چراغ جلتا تھا
وہ کتنی دُور رہا ، فیصلہ بھی اُس کا تھا
مجھے تو قرب کے احساس نے سنبھالا تھا
یہی غبارِ شب و روز کا کمال بھی ہے
جو آنکھ دیکھ نہ پائی وہ دل نے دیکھ تھا
سفر تمام ہوا ، اور حیرتیں نہ گئیں
جو قربتیں تھیں وہاں فاصلہ بلا کا تھا
نہ جانے لوگ کہاں تھے ، زمانہ تھا کہ نہیں
زمیں پہ میں تھی ، فلک پر بس اِک ستارا تھا
یہی خطا کہ پجارن تھی اور نہ دیوی تھی
بڑی خطا تھی کہ خود کو بھی میں نے چاہا تھا
جو اِذن ہو تو میں کچھ دیر اپنے پاس رہوں
کہا نہیں تھا یہ ، بس یوں ہی دل نے سوچا تھا
نہ آستاں نہ کوئی بام و در ہی جی کو لگے
چلن سدا سے یہی سر پھری ہوا کا تھا
بہت حسین ، بڑی دل نشیں حقیقت ہے
جو تشنہ لب تھا وہی اعتبارِ دریا تھا
پھر اس کے بعد اداؔ کوئی شب نہیں آئی
بس ایک نام بیاضِ سحر میں لکھا تھا
اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more