(اپنے بیٹے عزمی کے نام)
ذرا سنبھل
ذرا قدم بچا کے چل
کہ چبھ نہ جائیں تیرے پھول جیسے پاؤں میں
ان آئنوں کی کرچیاں
جنھیں کسی نے اشک اور کسی نے حرفِ آرزو کہا
کسی نے کاسۂ دعا
کہ میرے پاس تیری نذر کے لیے
کچھ اور تھا بھی کیا
یہ آنسوؤں کے رُوپ میں
گئی رُتوں کے آئنوں کی کر چیاں
پلک سے تھم نہ پائیں گی
ترے سفر کے راستوں میں آئیں گی
وداع کی گھڑی سہی
ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل
میں اپنے دل کے بت کدے میں
    یہ چراغ آئنے سنوار لوں
ان آئنوں میں تیرا حسن بے مثال ہے
ان آئنوں میں میری آرزو کے
    لمحے لمحے کا جمال ہے
وداع کی گھڑی سہی
ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل
ذرا قدم بچا کے چل
(اپنے بیٹے عزمی کے نام)
ذرا سنبھل
ذرا قدم بچا کے چل
کہ چبھ نہ جائیں تیرے پھول جیسے پاؤں میں
ان آئنوں کی کرچیاں
جنھیں کسی نے اشک اور کسی نے حرفِ آرزو کہا
کسی نے کاسۂ دعا
کہ میرے پاس تیری نذر کے لیے
کچھ اور تھا بھی کیا
یہ آنسوؤں کے رُوپ میں
گئی رُتوں کے آئنوں کی کر چیاں
پلک سے تھم نہ پائیں گی
ترے سفر کے راستوں میں آئیں گی
وداع کی گھڑی سہی
ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل
میں اپنے دل کے بت کدے میں
    یہ چراغ آئنے سنوار لوں
ان آئنوں میں تیرا حسن بے مثال ہے
ان آئنوں میں میری آرزو کے
    لمحے لمحے کا جمال ہے
وداع کی گھڑی سہی
ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل
ذرا قدم بچا کے چل
وداع کی گھڑی سہی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more