اور پھر میں نے سوچا |
کہ میرے کئی روپ ہیں |
کوئی بھی اسیری، اسیری نہیں |
جو زنداں کی دیوار اونچی ہوئی تو |
میں پھولوں ستاروں کی بے خواب |
آنکھوں میں تھی |
اور مرا شوق دیدار تھا |
میں اکثر ہواؤں کے بے تاب |
جھونکوں میں تھی |
کہ تسکینِ جاں کے لیے |
قربِ محبوب کے لمس سے آشنا ہو سکوں |
اور کبھی وحشتِ دل کی خاطر |
چٹانوں سے اور کوہساروں سے باتیں کروں |
کہ بازارِ سود و زیاں میں |
ہمیشہ زیاں ہی نہیں |
آرزو حاصلِ رائگاں ہی نہیں |
طلسمِ جہاں میں جو ظلمات کی رات تھی |
میں وہاں |
دل نشیں اسم کی روشنی میں رہی |
کہ میں خود بھی تعبیر اک خواب کی ہوں |
کہ میں زندگی ہوں! |
اور پھر میں نے سوچا |
کہ میرے کئی روپ ہیں |
کوئی بھی اسیری، اسیری نہیں |
جو زنداں کی دیوار اونچی ہوئی تو |
میں پھولوں ستاروں کی بے خواب |
آنکھوں میں تھی |
اور مرا شوق دیدار تھا |
میں اکثر ہواؤں کے بے تاب |
جھونکوں میں تھی |
کہ تسکینِ جاں کے لیے |
قربِ محبوب کے لمس سے آشنا ہو سکوں |
اور کبھی وحشتِ دل کی خاطر |
چٹانوں سے اور کوہساروں سے باتیں کروں |
کہ بازارِ سود و زیاں میں |
ہمیشہ زیاں ہی نہیں |
آرزو حاصلِ رائگاں ہی نہیں |
طلسمِ جہاں میں جو ظلمات کی رات تھی |
میں وہاں |
دل نشیں اسم کی روشنی میں رہی |
کہ میں خود بھی تعبیر اک خواب کی ہوں |
کہ میں زندگی ہوں! |