لُو کے موسم میں دل انداز صبا کا چاہے
بات جس تس سے کرے ذکر تمھارا چاہے
خواب اب یوں ہیں کہ جیسے کوئی ضدی بالک
آگ کو ، پھول سے ہاتھوں میں پکڑنا چاہے
سر کی چادر بھی ہوا میں نہ سنبھالی جائے
اور گھٹا ہے کہ برسنے کو بہانا چاہے
شاخِ گل آئی ہے یوں میرے دریچے کے قریں
زندگی جیسے کوئی قرض چکانا چاہے
درد کا فیصلہ ٔسود و زیاں اور ہی تھا
تشنگی خود کبھی دریا ، کبھی صحرا چاہے
جانے کیا بات تھی اُس روز کوئی در نہ کھلا
غم مسافر تھا — اور ایسا کہ ٹھکانہ چاہے
یہ مقدر ہے اداؔ پھول کھلے یا نہ کھلے
وہ جو خوشبو ہے بلاوا نہ سندیسا چاہے
لُو کے موسم میں دل انداز صبا کا چاہے
بات جس تس سے کرے ذکر تمھارا چاہے
خواب اب یوں ہیں کہ جیسے کوئی ضدی بالک
آگ کو ، پھول سے ہاتھوں میں پکڑنا چاہے
سر کی چادر بھی ہوا میں نہ سنبھالی جائے
اور گھٹا ہے کہ برسنے کو بہانا چاہے
شاخِ گل آئی ہے یوں میرے دریچے کے قریں
زندگی جیسے کوئی قرض چکانا چاہے
درد کا فیصلہ ٔسود و زیاں اور ہی تھا
تشنگی خود کبھی دریا ، کبھی صحرا چاہے
جانے کیا بات تھی اُس روز کوئی در نہ کھلا
غم مسافر تھا — اور ایسا کہ ٹھکانہ چاہے
یہ مقدر ہے اداؔ پھول کھلے یا نہ کھلے
وہ جو خوشبو ہے بلاوا نہ سندیسا چاہے
لوُ کے موسم میں دل انداز صبا کا چاہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more