کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ
کب اتنی ادا شناس تھی وہ
ہر خواب سے بے طرح ہراساں
ہر خواب کے آس پاس تھی وہ
سرشاریِ شوق و بے نیازی
ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ
پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں
اور سرو و سمن کی آس تھی وہ
جیسے شبِ ہجر کی سحر ہو
کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ
ناگفتہ حکایتِ تمناّ
اور پھر بھی شکستِ یاس تھی وہ
کانٹوں میں گلاب کِھل رہے تھے
مت کہ یوکہ ناسپاس تھی وہ
اس نام و نمود کے نگر میں
بے نام و نشاں اساس تھی وہ
چھیڑی تھی اداؔ نے آپ بیتی
یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ
کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ
کب اتنی ادا شناس تھی وہ
ہر خواب سے بے طرح ہراساں
ہر خواب کے آس پاس تھی وہ
سرشاریِ شوق و بے نیازی
ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ
پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں
اور سرو و سمن کی آس تھی وہ
جیسے شبِ ہجر کی سحر ہو
کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ
ناگفتہ حکایتِ تمناّ
اور پھر بھی شکستِ یاس تھی وہ
کانٹوں میں گلاب کِھل رہے تھے
مت کہ یوکہ ناسپاس تھی وہ
اس نام و نمود کے نگر میں
بے نام و نشاں اساس تھی وہ
چھیڑی تھی اداؔ نے آپ بیتی
یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ
کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more