کوئی سنگِ رہ بھی چمک اُٹھاتو ستارۂ سحری کہا

کوئی سنگِ رہ بھی چمک اُٹھا تو ستارۂ سحری کہا
مری رات بھی ترے نام تھی اسے کس نے تیرہ شبی کہا
مرے روز و شب بھی عجیب تھے نہ شمار تھا نہ حساب تھا
کبھی عمر بھر کی خبر نہ تھی ، کبھی ایک پل کو صدی کہا
مجھے جانتا بھی کوئی نہ تھا ، مرے بے نیاز ترے سوا
نہ شکست ِ دل نہ شکست ِ جاں کہ تری خوشی کو خوشی کہا
کوئی یاد آ بھی گئی تو کیا ، کوئی زخم کِھل بھی اُٹھا تو کیا
جو صبا قریب سے ہو چلی اُسے منتوں کی گھڑی کہا
بھری دوپہر میں جو پاس تھی ، وہ ترے خیال کی چھاؤں تھی
کبھی شاخ گل سے مثال دی ، کبھی اس کو سروِ سہی کہا
کہیں سنگِ رہ کہیں سنگِ در ، کہ میں پتھروں کے نگر میں ہوں
یہ نہیں کہ دل کو خبر نہ تھی ، یہ بتا کہ منھ سے کبھی کہا
مرے حرف حرف کے ہاتھ میں سبھی آئنوں کی ہیں کرچیاں
جو زباں سے ہو نہ سکا اداؔ بہ حدودِ بے سخنی کہا
کوئی سنگِ رہ بھی چمک اُٹھا تو ستارۂ سحری کہا
مری رات بھی ترے نام تھی اسے کس نے تیرہ شبی کہا
مرے روز و شب بھی عجیب تھے نہ شمار تھا نہ حساب تھا
کبھی عمر بھر کی خبر نہ تھی ، کبھی ایک پل کو صدی کہا
مجھے جانتا بھی کوئی نہ تھا ، مرے بے نیاز ترے سوا
نہ شکست ِ دل نہ شکست ِ جاں کہ تری خوشی کو خوشی کہا
کوئی یاد آ بھی گئی تو کیا ، کوئی زخم کِھل بھی اُٹھا تو کیا
جو صبا قریب سے ہو چلی اُسے منتوں کی گھڑی کہا
بھری دوپہر میں جو پاس تھی ، وہ ترے خیال کی چھاؤں تھی
کبھی شاخ گل سے مثال دی ، کبھی اس کو سروِ سہی کہا
کہیں سنگِ رہ کہیں سنگِ در ، کہ میں پتھروں کے نگر میں ہوں
یہ نہیں کہ دل کو خبر نہ تھی ، یہ بتا کہ منھ سے کبھی کہا
مرے حرف حرف کے ہاتھ میں سبھی آئنوں کی ہیں کرچیاں
جو زباں سے ہو نہ سکا اداؔ بہ حدودِ بے سخنی کہا
کوئی سنگِ رہ بھی چمک اُٹھاتو ستارۂ سحری کہا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more