اُجالا سسکیاں لیتا رہا گھر میں |
دیا دہلیز پر جلتا رہا |
جس کو کسی جاں بخش ساعت میں |
مقدس آگ سے روشن کیا اُس نے |
وہ انساں دیوتا تھا یا مسیحا تھا |
وہ بھولا تو نہیں ہوگا |
نہ جانے بے وفا دُنیا کے کتنے کام تھے اس کو |
نہ جانے کتنے دھندے تھے |
کہ وہ اب تک نہیں پلٹا |
دیا تو صبح ہونے تک سدا جلتا ہی رہتا ہے |
کوئی اتنا بتا دیتا |
کہ وہ جن راستوں میں ہے |
وہا ں اس کو اندھیرا تو نہیں ملتا—؟ |
اُجالا سسکیاں لیتا رہا گھر میں |
دیا دہلیز پر جلتا رہا |
جس کو کسی جاں بخش ساعت میں |
مقدس آگ سے روشن کیا اُس نے |
وہ انساں دیوتا تھا یا مسیحا تھا |
وہ بھولا تو نہیں ہوگا |
نہ جانے بے وفا دُنیا کے کتنے کام تھے اس کو |
نہ جانے کتنے دھندے تھے |
کہ وہ اب تک نہیں پلٹا |
دیا تو صبح ہونے تک سدا جلتا ہی رہتا ہے |
کوئی اتنا بتا دیتا |
کہ وہ جن راستوں میں ہے |
وہا ں اس کو اندھیرا تو نہیں ملتا—؟ |