اِس تضادِ شب و روز میں
زندگی رقصِ آئینہ گر
اور میں آئینہ
    صرف پرچھائیاں — اور میں
   میری مانوس تنہائیاں — اور میں
   ذات کی ریشمیں، نرم آغوش میں
   موت کا سا سکوں
   جیسے اک ساغرِ واژگوں
جیسے پلکوں کی موہوم سی جنبشِ بے زباں
گھاس کی سبز پتی
کسی پھول کی پنکھڑی کی طرح ناتواں
خواب پروائیاں
اور میں
عکس، تصویر، تفسیر، تشہیر بھی
اپنے پیروں کی زنجیر بھی
اور کبھی
درد کی اک کرن
اور ہی داستاں چھیڑدے
اک نگاہ ِفسوں آشنا کی طرح
زخم لودے اُٹھیں
اعتمادِ طلب سونپ دیں
میری بے بس تمنا کے جتنے بھی اصنام ہیں
سانس لینے لگیں
راز پہنائیاں
آنچ دینے لگیں
زہرِاحساس نس نس میں شعلہ فشاں ہو تو پھر
میرے مغرورفن کا ہر اک معجزہ
جرأتِ آگہی
جاگ اُٹھے
شہرِ جاں میں کوئی رنگ مدھم نہیں
وحشتِ شوق کو زادِ رہ کے لیے
سلسبیلِ نگہ کم نہیں
اور میں اِس تضادِ شب وروز میں
جتنے رنگوں کی پہچان ہوں
اُن کو پہچان لوں
پھر مرے رُوبرو
رقصِ آئینہ گر آئینہ!
اِس تضادِ شب و روز میں
زندگی رقصِ آئینہ گر
اور میں آئینہ
    صرف پرچھائیاں — اور میں
   میری مانوس تنہائیاں — اور میں
   ذات کی ریشمیں، نرم آغوش میں
   موت کا سا سکوں
   جیسے اک ساغرِ واژگوں
جیسے پلکوں کی موہوم سی جنبشِ بے زباں
گھاس کی سبز پتی
کسی پھول کی پنکھڑی کی طرح ناتواں
خواب پروائیاں
اور میں
عکس، تصویر، تفسیر، تشہیر بھی
اپنے پیروں کی زنجیر بھی
اور کبھی
درد کی اک کرن
اور ہی داستاں چھیڑدے
اک نگاہ ِفسوں آشنا کی طرح
زخم لودے اُٹھیں
اعتمادِ طلب سونپ دیں
میری بے بس تمنا کے جتنے بھی اصنام ہیں
سانس لینے لگیں
راز پہنائیاں
آنچ دینے لگیں
زہرِاحساس نس نس میں شعلہ فشاں ہو تو پھر
میرے مغرورفن کا ہر اک معجزہ
جرأتِ آگہی
جاگ اُٹھے
شہرِ جاں میں کوئی رنگ مدھم نہیں
وحشتِ شوق کو زادِ رہ کے لیے
سلسبیلِ نگہ کم نہیں
اور میں اِس تضادِ شب وروز میں
جتنے رنگوں کی پہچان ہوں
اُن کو پہچان لوں
پھر مرے رُوبرو
رقصِ آئینہ گر آئینہ!
اِس تضادِ شب و روز میں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more