اس سے زیادہ رنگ کہاں تھا وفاؤں میں
اُجلی سی اک لکیر تھی کالی گھٹاؤں میں
عارض پہ رنگ ، لب پہ تبسم ، نگہ میں لو
اک بے لباس درد ہے کتنی رداؤں میں
ہاں رہ گزر پہ موجۂ گُل کا گماں ہوا
کس کو خبر کہ آبلے کتنے تھے پاؤں میں
دیکھا وہی جو آنکھ نے دیکھا نہیں کبھی
دل ہے شریکِ کار نگہ کی خطاؤں میں
شاید ادھر سے قافلۂ رنگ و بُو گیا
خوشبو کی سسکیاں ہیں ابھی تک ہواؤں میں
مقدور بھر جو راہ کا پتھر بنے رہے
وہ لوگ یاد آئے ہیں اکثر دعاؤں میں
ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں اداؔ
کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلاؤں میں
اس سے زیادہ رنگ کہاں تھا وفاؤں میں
اُجلی سی اک لکیر تھی کالی گھٹاؤں میں
عارض پہ رنگ ، لب پہ تبسم ، نگہ میں لو
اک بے لباس درد ہے کتنی رداؤں میں
ہاں رہ گزر پہ موجۂ گُل کا گماں ہوا
کس کو خبر کہ آبلے کتنے تھے پاؤں میں
دیکھا وہی جو آنکھ نے دیکھا نہیں کبھی
دل ہے شریکِ کار نگہ کی خطاؤں میں
شاید ادھر سے قافلۂ رنگ و بُو گیا
خوشبو کی سسکیاں ہیں ابھی تک ہواؤں میں
مقدور بھر جو راہ کا پتھر بنے رہے
وہ لوگ یاد آئے ہیں اکثر دعاؤں میں
ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہ تھیں اداؔ
کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلاؤں میں
اس سے زیادہ رنگ کہاں تھا وفاؤں میں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more