نہیں |
میرے بچو! |
جدائی تو عفریت ہے |
سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے |
اس کو نزدیک آنے نہ دو |
تم مجھے دیکھ لو |
کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں |
روز ہر روزنِ در کے آگے |
حصارِ دعا کھینچ دوں |
تم مری آنکھ میں اعتبارِ نگہ کی طرح |
فاصلے، دُوریاں کچھ نہیں |
تم میرے پاس ہو ، میں تمھارے قریں |
تم تو خود اپنی دھرتی کا چہرہ ہو |
آواز ہو |
تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن و ہیں |
ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں |
ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں |
اور گل مہر کی مہرباں چھاؤں بھی |
اور دیوار پر جاگتا بولتا لمس کا یہ نشاں |
ہے یہاں جیسے دیپک کی لَو |
اور وہاں روشنی |
میں تو جس آئنے میں بھی چاہوں |
تمھیں دیکھ لوں |
موتیا کی کلی جب بھی چٹکی ہے |
اس میں تمھاری ہنسی گھل گئی |
اور چمپا کی خوشبو میں لہجے کی دھیمی مہک تل گئی |
دیکھ لو کس طرح |
کہر آلود موسم کی سختی سے بچتی رہی |
یاد کی بھیگتی چاندنی میں |
میں اب بھی بہاروں سے لے کر |
ردائے صبا اوڑھ لوں! |
نہیں |
میرے بچو! |
جدائی تو عفریت ہے |
سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے |
اس کو نزدیک آنے نہ دو |
تم مجھے دیکھ لو |
کس یقیں اور کتنے تحمل سے میں |
روز ہر روزنِ در کے آگے |
حصارِ دعا کھینچ دوں |
تم مری آنکھ میں اعتبارِ نگہ کی طرح |
فاصلے، دُوریاں کچھ نہیں |
تم میرے پاس ہو ، میں تمھارے قریں |
تم تو خود اپنی دھرتی کا چہرہ ہو |
آواز ہو |
تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن و ہیں |
ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں |
ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں |
اور گل مہر کی مہرباں چھاؤں بھی |
اور دیوار پر جاگتا بولتا لمس کا یہ نشاں |
ہے یہاں جیسے دیپک کی لَو |
اور وہاں روشنی |
میں تو جس آئنے میں بھی چاہوں |
تمھیں دیکھ لوں |
موتیا کی کلی جب بھی چٹکی ہے |
اس میں تمھاری ہنسی گھل گئی |
اور چمپا کی خوشبو میں لہجے کی دھیمی مہک تل گئی |
دیکھ لو کس طرح |
کہر آلود موسم کی سختی سے بچتی رہی |
یاد کی بھیگتی چاندنی میں |
میں اب بھی بہاروں سے لے کر |
ردائے صبا اوڑھ لوں! |