ہر اک دریچہ کر ن کرن ہے جہاں سے گزرے جدھر گئے ہیں

ہر اک دریچہ کرن کرن ہے جہاں سے گزرے جدھر گئے ہیں
ہم اک دیا آرزو کا لے کر بہ طرزِ شمس و قمر گئے ہیں
جو میری پلکوں سے تھم نہ پائے وہ شبنمیں مہرباں اُجالے
تمھاری آ نکھوں میں آگئے تو تمام رستے نکھر گئے ہیں
وہ دور کب تھا حریم جاں سے کہ لفظ و معنی کے ناز اُٹھاتی
جو حرف ہونٹوں پہ آ نہ پائے وہ بن کے خوشبو بکھر گئے ہیں
جو درد عیسیٰ نفس نہ ہوتا ، تو دل پہ کیا اعتبار آتا
کچھ اور پیماں ، کچھ اور پیکاں کہ زخم جتنے تھے بھر گئے ہیں
خزینے جاں کے لٹانے والے ، دلوں میں بسنے کی آس لے کر
سنا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں
جب اک نگہ سے خراش آئی زمانے بھر سے گلہ ہوا ہے
جو دل دکھاے تو رنج سارے نہ جانے کس کس کے سر گئے ہیں
شکستِ دل تک نہ بات پہنچی مگر اداؔ کہہ سکو تو کہنا
کہ اب کے ساون دھنک سے آنچل کے رنگ سارے اُتر گئے ہیں
ہر اک دریچہ کرن کرن ہے جہاں سے گزرے جدھر گئے ہیں
ہم اک دیا آرزو کا لے کر بہ طرزِ شمس و قمر گئے ہیں
جو میری پلکوں سے تھم نہ پائے وہ شبنمیں مہرباں اُجالے
تمھاری آ نکھوں میں آگئے تو تمام رستے نکھر گئے ہیں
وہ دور کب تھا حریم جاں سے کہ لفظ و معنی کے ناز اُٹھاتی
جو حرف ہونٹوں پہ آ نہ پائے وہ بن کے خوشبو بکھر گئے ہیں
جو درد عیسیٰ نفس نہ ہوتا ، تو دل پہ کیا اعتبار آتا
کچھ اور پیماں ، کچھ اور پیکاں کہ زخم جتنے تھے بھر گئے ہیں
خزینے جاں کے لٹانے والے ، دلوں میں بسنے کی آس لے کر
سنا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں
جب اک نگہ سے خراش آئی زمانے بھر سے گلہ ہوا ہے
جو دل دکھاے تو رنج سارے نہ جانے کس کس کے سر گئے ہیں
شکستِ دل تک نہ بات پہنچی مگر اداؔ کہہ سکو تو کہنا
کہ اب کے ساون دھنک سے آنچل کے رنگ سارے اُتر گئے ہیں
ہر اک دریچہ کر ن کرن ہے جہاں سے گزرے جدھر گئے ہیں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more