گُلوں کو چُھو کے شمیم دعا نہیں آئی |
کھلا ہوا تھا دریچہ ، صبا نہیں آئی |
ہوائے دشت! ابھی تو جنوں کا موسم تھا |
کہاں تھے ہم تری آوازِ پا نہیں آئی |
ابھی صحیفہ ٔجاں پر رقم بھی کیا ہوگا |
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی |
ہم اتنی دُور کہاں تھے کہ پھر پلٹ نہ سکیں |
سوادِ شہر سے کوئی صدا نہیں آئی |
سنا ہے دل بھی نگر تھا ، رسا بسا بھی تھا |
جلا تو آنچ بھی اہلِ وفا! نہیں آئی |
نہ جانے قافلے گزرے کہ ہے قیام ابھی |
ابھی چراغ بجھا نے ہوا نہیں آئی |
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی |
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی |
ہتھیلیوں کے گلابوں سے خون رستا رہا |
مگر وہ شوخیِ رنگِ حنا نہیں آئی |
غیور دل سے نہ مانگی گئی مراد اداؔ |
برسنے آپ ہی کالی گھٹا نہیں آئی |
گُلوں کو چُھو کے شمیم دعا نہیں آئی |
کھلا ہوا تھا دریچہ ، صبا نہیں آئی |
ہوائے دشت! ابھی تو جنوں کا موسم تھا |
کہاں تھے ہم تری آوازِ پا نہیں آئی |
ابھی صحیفہ ٔجاں پر رقم بھی کیا ہوگا |
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی |
ہم اتنی دُور کہاں تھے کہ پھر پلٹ نہ سکیں |
سوادِ شہر سے کوئی صدا نہیں آئی |
سنا ہے دل بھی نگر تھا ، رسا بسا بھی تھا |
جلا تو آنچ بھی اہلِ وفا! نہیں آئی |
نہ جانے قافلے گزرے کہ ہے قیام ابھی |
ابھی چراغ بجھا نے ہوا نہیں آئی |
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی |
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی |
ہتھیلیوں کے گلابوں سے خون رستا رہا |
مگر وہ شوخیِ رنگِ حنا نہیں آئی |
غیور دل سے نہ مانگی گئی مراد اداؔ |
برسنے آپ ہی کالی گھٹا نہیں آئی |